نئی دہلی: اردو کے مایۂ ناز شاعر، ناقد، صحافی اور ہردل عزیز سیاسی رہنما پروفیسر اسلم آزاد کے انتقال پر دہلی کے ادبا نے رنجم وغم کا اظہار کیا ہے۔ پروفیسر اسلم آزاد سرکاری اعزاز کے ساتھ اپنے آبائی گاؤں مولانگر (سیتامڑھی) میں سپرد خاککیے گئے ہیں۔
پروفیسر اسلم آزاد کا 8؍ جون کو72 سال کی عمر میں پٹنہ ایمس میں انتقال ہوگیا تھا۔ ان کے بھانجے پروفیسر ابوبکر رضوی نے بتایا کہ آپ کی رحلت ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ ایک مقبول استاد ، اردو اور مسلم مسائل کے لیے وقف ان کی شخصیت ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
پروفیسر اسلم آزاد کے شاگردِ عزیز پروفیسر کوثر مظہری نے کہا کہ وہ میرے مشفق استاد تھے اور انھوں نے مجھے طالب علمی کے زمانے سے لے کر آخری وقت تک عزیز رکھا۔ اکثر کوئی مضمون شائع ہوتا تو فون کرکے مبارکباد دیتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔ ان کی شخصیت میں محبت، انکسار اور خلوص بھرا ہوا تھا۔ فکشن تنقید کے حوالے سے ان کی خدمات کو ادبی تاریخ میں فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آج ان کے چلے جانے سے ایک خلا کا احساس ہورہا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور متعلقین کو صبر جمیل دے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ شعبہ اردو کے اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر خالد مبشرنے کہا کہ بہار کے ادبی و سیاسی منظر نامے پر ان کا نام نمایاں ہے اور زبان و ادب کے فروغ میں ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ پروفیسر اسلم آزاد کو طالب علمی کے زمانے سے شعر و ادب سے گہرا شغف تھا۔ گریجویشن کے زمانے میں ہی انھوں نے مولانگر سے ایک ادبی رسالہ ’’شباب‘‘ نکالا۔ جناب رضا نقوی واہی کی ایما پر انھوں نے پٹنہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہیں سے ایم۔ اے اور پروفیسر اختر اورینوی کی نگرانی میں پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں پٹنہ یونیورسٹی میں لکچرر بحال ہوئے اور اردو میں سب سے کم عمر یونیورسٹی پروفیسر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
وہ ایک طویل عرصے تک پٹنہ یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اردو اور ڈین فیکلٹی آف ہیومنیٹیز رہے۔ 2006 میں بہار قانون ساز کونسل کے رکن منتخب ہوئے اور کونسل میں جنتا دل یو کے ڈپٹی لیڈر مقرر ہوئے۔ بہار قانون ساز کونسل سے شائع ہونے والے خبرنامہ اور رسالہ ترجمان کے مدیر بھی رہے۔ انھوں نے تقریباً ایک درجن کتابیں لکھیں اور ہند و پاک کے موقر جرائد میں مسلسل ان کی تحریریں شائع ہوتی رہیں۔
’اردو ناول آزادی کے بعد‘، ’قرۃ العین حیدر کی ناول نگاری‘، ’عزیز احمد بحیثیت ناول نگار‘، ’اردو کے غیر مسلم شعرا‘ اور شعری مجموعے ’نشاطِ کرب‘، ’مختلف‘ اور ’ریت پر اک نام‘ ان کی اہم تصانیف ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف تعلیمی اور سیاسی عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود خاکساری، اخلاق اور غریب پروری ان کی ذات کا اٹوٹ حصہ رہی۔