دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا کہنا ہے کہ دہلی وقف بورڈ کی جانب سے نیو ہورائزن اسکول کو اپنی تحویل میں لینے کا فیصلہ غیر سنجیدہ ہے۔
خان نے بتایا کہ اس تعلق سے وقف بورڈ کا کہنا ہے کہ اسکول سے متعلق مسلسل شکایات بورڈ کو مل رہی تھیں کہ اسکول کا تعلیمی معیار گرتا جارہا ہے ساتھ ہی یہاں من مانے طریقے سے فیس وصول کی جا رہی ہے۔
جب اس سے متعلق انتظامیہ سے رجوع کیا گیا تو بورڈ نے پرپوزل دیتے ہوئے اس بات کا یقین دلایا تھا کہ اسکول میں 20 فیصد غریب بچوں کو داخلہ دیا جائے گا ساتھ ہی بورڈ کو ساڑھے تین فیصد ریونیو بھی دیا جائے گا اور 3 سال بعد بھی اس پر عمل نہیں کیا گیا۔
اسکول کو دی گئی تین سال کی لیز کی میعاد بھی ختم ہوچکی ہے اور اسکول انتظامیہ نے ابھی تک اس کی میعاد کار میں اجافہ نہیں کروایا ہے۔
محکمہ تعلیم، اسکول انتظامیہ سے لیز کے دستاویزات مانگ رہا ہے مگر اسکول کے پاس کاغذات نہیں ہے یہاں تک کہ محکمہ تعلیم نے اسکول کی دوسری شفٹ کو پہلے ہی بند کر دیا۔
بورڈ کی جانب سے اسکول پر دفعہ 54 کی کارروائی بھی جاری ہے ان سب باتوں کے مد نظر بورڈ نے یہ فیصلہ لیا ہے۔
اس تعلق سے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ تو انہوں نے دہلی وقف بورڈ کا یہ اقدام صحیح نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک اسکول اور اس کے نام کو بنانے میں کافی لمبا عرصہ گزرا ہے اور دہلی وقف بورڈ اپنے اس قدم سے اسکول کا نام خراب کردے گا۔
ڈاکٹر ظفرالاسلام نے مزید کہا کہ اگر کوئی مسئلہ درپیش ہے تو بورڈ کو چاہیے کہ وہ انتطامیہ سے بات چیت کر کے اس معاملے کو حل کرے یا تو وہ عدالت کا بھی دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں لیکن اس طرح کا کوئی بھی قدم بچوں کے مستقبل کے لیے بہتر بالکل بھی نہیں ہو سکتا۔
جب اس بارے میں دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان سے بات کی گئی تو انہوں نے کیمرے پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔