ETV Bharat / state

دہلی: قاضی مجاہد الاسلام گیارہویں میموریل لکچر کا انعقاد - اسٹین فورڈ یونیورسٹی: سرکردہ سائنس دانوں کی عالمی فہرست میں جامعہ کے 16 محققین شامل

اسلام نے خاندان اور سماج کا جو تصور پیش کیا ہے وہ موجودہ دور کے ان تصورات سے برعکس ہے۔ اس نے انسان کی فطرت میں ودیعت شدہ جنسی جذبہ کو اہمیت دی ہے۔ وہ نہ اسے دبانے اور کچلنے کا قائل ہے، نہ انسان کو بے مہار چھوڑ دیتا ہے کہ اس کی تسکین کے لیے جو طریقہ چاہے اختیار کرے، بلکہ وہ اسے ایک مخصوص طریقہ کا پابند کرتا ہے، جس کا نام نکاح ہے۔

ای ٹی وی بھارت اردو نیوز
ای ٹی وی بھارت اردو نیوز
author img

By

Published : Nov 7, 2021, 7:31 PM IST

نئی دہلی: انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے زیر اہتمام گیارہویں قاضی مجاہد الاسلام یادگاری خطبہ پیش کیا گیا جس میں مقررین نے قاضی مجاہد الاسلام کی حیات وخدمات کے ساتھ اسلامی اور دنیاوی قوانین پر سیر حاصل گفتگو کی۔ یہ پروگروام آن لائن یعنی ویبنار کے طور پر کیا گیا جس میں اسلامی دانشور مولانا ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی اور پروفیسر محمد فہیم اختر ندوی نے خطاب کیا۔
افتتاحی خطاب میں معروف عالم دین و اسلامی دانش ور مولانا ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے کہا کہ اسلام نے خاندان اور سماج کا جو تصور پیش کیا ہے وہ موجودہ دور کے ان تصورات سے برعکس ہے۔ اس نے انسان کی فطرت میں ودیعت شدہ جنسی جذبہ کو اہمیت دی ہے۔ وہ نہ اسے دبانے اور کچلنے کا قائل ہے، نہ انسان کو بے مہار چھوڑ دیتا ہے کہ اس کی تسکین کے لیے جو طریقہ چاہے اختیار کرے، بلکہ وہ اسے ایک مخصوص طریقہ کا پابند کرتا ہے، جس کا نام نکاح ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”اسلام کے نزدیک ہم جنس پرستی شدید مبغوض شئے اور موجبِ تعزیر جرم ہے، اس لیے کہ یہ انسان کے فطری داعیہ کے خلاف اور اس سے بغاوت ہے۔ اسی طرح اسلام میں انسان اپنے اعضائے جسم کا مالک نہیں، بلکہ امین ہے، اس لیے مادۂ منویہ کو اسپرم بینک میں محفوظ کرنے اور رحم کو کرائے پر دینے کا اسے کوئی حق نہیں۔ اولاد شادی شدہ جوڑے کے لیے اللہ تعالیٰ کا انمول عطیہ ہے، اس لیے رحم مادر میں پرورش پانے والا جنین لڑکا ہو یا لڑکی، دونوں یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔اولاد بوڑھے والدین خاندان کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، اس لیے ان کی ہرطرح سے خدمت کرنا، ان کے لیے دیدہ و دل کو فرشِ راہ کرنا اور ان کی تنک مزاجی کو برداشت کرنا سعادت مندی ہے۔

ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے کہا کہ ”خاندان اور سماج کی صحیح خطوط پر استواری کے لیے اسلام نے جو تعلیمات دی ہیں، اگر ان پر عمل کیا جائے تو وہ مسائل پیدا ہی نہیں ہوں گے، جن کا اوپر کی سطور میں تذکرہ کیا گیا ہے، اس لیے کہ اللہ رب العالمین انسانوں کی ضروریات سے بھی واقف ہے اور ان کی فطرت سے بھی اچھی طرح آگاہ ہے، جس پر اس نے انھیں پیدا کیا ہے۔ خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب انسان اپنی فطرت سے بغاوت کرتے ہیں اور اس سے انحراف کرکے غلط راہوں پر جاپڑتے ہیں۔ اسلام کی یہ تعلیمات محض خیالی اور نظریاتی نہیں ہیں، بلکہ ایک عرصہ تک دنیا کے قابل ِلحاظ حصہ میں نافذ رہی ہیں اور سماج پر ان کے بہت خوش گوار اثرات مرتب ہوئے ہیں۔“

صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر محمد فہیم اختر ندوی نے فاضل مقرر کے خطبے کی بڑی ستائش کی اور اس خطبے کو انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کی علمی فتوحات کی ایک اہم کڑی قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ”قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ اپنے قضا اور افتا کے ذریعے اسلام کو سماج کے اندر ایک جاری وساری روح کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ نہایت باریک بینی کے ساتھ سماجی مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے حل کا اسلامی نقطہئ نظر پیش کرتے تھے۔ آج کے موضوع کے لیے فاضل مقرر کا انتخاب نہایت موزوں تھا۔ اس موضوع سے وابستہ متعدد گوشے ایسے ہیں، جن پر تفصیل سے بحث ومباحثے کی ضرورت ہے۔ یہ مسائل درحقیقت مسائل نہیں بلکہ سماجی برائیاں ہیں۔ ان کے سماجی، نفسیاتی اور طبی نقصانات کے تحقیقی مطالعے کی ضرورت ہے۔ اگر فاضل مقرر کی رہنمائی میں آئی او ایس کے زیر اہتمام یہ کام انجام پائے تو یہ ایک بڑا اہم قدم ہوگا۔“



پروگرام کی نظامت شاہ اجمل فاروق ندوی نے انجام دی۔ انھوں نے آغاز میں قاضی مجاہد الاسلام میموریل لکچر کا تعارف پیش کیا اور مہمان مقرر کا تعارف بھی کرایا۔ جلسے کا آغاز محمد اطہر حسین ندوی کی تلاوت سے ہوا۔ بڑی تعداد میں سامعین موجود تھے، جن میں پروفیسر عبدالعلی، پروفیسر حسینہ حاشیہ، ڈاکٹر محمد اکرم، ڈاکٹر مجیب اختر، ڈاکٹر ذیشان سارہ، محمد عطاء الرحمٰن، محمد عالم، مولانا خالد حسین ندوی اور راشد انور خصوصیت کے ساتھ موجود تھے۔

نئی دہلی: انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے زیر اہتمام گیارہویں قاضی مجاہد الاسلام یادگاری خطبہ پیش کیا گیا جس میں مقررین نے قاضی مجاہد الاسلام کی حیات وخدمات کے ساتھ اسلامی اور دنیاوی قوانین پر سیر حاصل گفتگو کی۔ یہ پروگروام آن لائن یعنی ویبنار کے طور پر کیا گیا جس میں اسلامی دانشور مولانا ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی اور پروفیسر محمد فہیم اختر ندوی نے خطاب کیا۔
افتتاحی خطاب میں معروف عالم دین و اسلامی دانش ور مولانا ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے کہا کہ اسلام نے خاندان اور سماج کا جو تصور پیش کیا ہے وہ موجودہ دور کے ان تصورات سے برعکس ہے۔ اس نے انسان کی فطرت میں ودیعت شدہ جنسی جذبہ کو اہمیت دی ہے۔ وہ نہ اسے دبانے اور کچلنے کا قائل ہے، نہ انسان کو بے مہار چھوڑ دیتا ہے کہ اس کی تسکین کے لیے جو طریقہ چاہے اختیار کرے، بلکہ وہ اسے ایک مخصوص طریقہ کا پابند کرتا ہے، جس کا نام نکاح ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”اسلام کے نزدیک ہم جنس پرستی شدید مبغوض شئے اور موجبِ تعزیر جرم ہے، اس لیے کہ یہ انسان کے فطری داعیہ کے خلاف اور اس سے بغاوت ہے۔ اسی طرح اسلام میں انسان اپنے اعضائے جسم کا مالک نہیں، بلکہ امین ہے، اس لیے مادۂ منویہ کو اسپرم بینک میں محفوظ کرنے اور رحم کو کرائے پر دینے کا اسے کوئی حق نہیں۔ اولاد شادی شدہ جوڑے کے لیے اللہ تعالیٰ کا انمول عطیہ ہے، اس لیے رحم مادر میں پرورش پانے والا جنین لڑکا ہو یا لڑکی، دونوں یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔اولاد بوڑھے والدین خاندان کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، اس لیے ان کی ہرطرح سے خدمت کرنا، ان کے لیے دیدہ و دل کو فرشِ راہ کرنا اور ان کی تنک مزاجی کو برداشت کرنا سعادت مندی ہے۔

ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے کہا کہ ”خاندان اور سماج کی صحیح خطوط پر استواری کے لیے اسلام نے جو تعلیمات دی ہیں، اگر ان پر عمل کیا جائے تو وہ مسائل پیدا ہی نہیں ہوں گے، جن کا اوپر کی سطور میں تذکرہ کیا گیا ہے، اس لیے کہ اللہ رب العالمین انسانوں کی ضروریات سے بھی واقف ہے اور ان کی فطرت سے بھی اچھی طرح آگاہ ہے، جس پر اس نے انھیں پیدا کیا ہے۔ خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب انسان اپنی فطرت سے بغاوت کرتے ہیں اور اس سے انحراف کرکے غلط راہوں پر جاپڑتے ہیں۔ اسلام کی یہ تعلیمات محض خیالی اور نظریاتی نہیں ہیں، بلکہ ایک عرصہ تک دنیا کے قابل ِلحاظ حصہ میں نافذ رہی ہیں اور سماج پر ان کے بہت خوش گوار اثرات مرتب ہوئے ہیں۔“

صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر محمد فہیم اختر ندوی نے فاضل مقرر کے خطبے کی بڑی ستائش کی اور اس خطبے کو انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کی علمی فتوحات کی ایک اہم کڑی قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ”قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ اپنے قضا اور افتا کے ذریعے اسلام کو سماج کے اندر ایک جاری وساری روح کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ نہایت باریک بینی کے ساتھ سماجی مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے حل کا اسلامی نقطہئ نظر پیش کرتے تھے۔ آج کے موضوع کے لیے فاضل مقرر کا انتخاب نہایت موزوں تھا۔ اس موضوع سے وابستہ متعدد گوشے ایسے ہیں، جن پر تفصیل سے بحث ومباحثے کی ضرورت ہے۔ یہ مسائل درحقیقت مسائل نہیں بلکہ سماجی برائیاں ہیں۔ ان کے سماجی، نفسیاتی اور طبی نقصانات کے تحقیقی مطالعے کی ضرورت ہے۔ اگر فاضل مقرر کی رہنمائی میں آئی او ایس کے زیر اہتمام یہ کام انجام پائے تو یہ ایک بڑا اہم قدم ہوگا۔“



پروگرام کی نظامت شاہ اجمل فاروق ندوی نے انجام دی۔ انھوں نے آغاز میں قاضی مجاہد الاسلام میموریل لکچر کا تعارف پیش کیا اور مہمان مقرر کا تعارف بھی کرایا۔ جلسے کا آغاز محمد اطہر حسین ندوی کی تلاوت سے ہوا۔ بڑی تعداد میں سامعین موجود تھے، جن میں پروفیسر عبدالعلی، پروفیسر حسینہ حاشیہ، ڈاکٹر محمد اکرم، ڈاکٹر مجیب اختر، ڈاکٹر ذیشان سارہ، محمد عطاء الرحمٰن، محمد عالم، مولانا خالد حسین ندوی اور راشد انور خصوصیت کے ساتھ موجود تھے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.