ETV Bharat / state

جامعہ تشدد ایک سوچی سمجھی سازش: دہلی پولیس

author img

By

Published : Jun 5, 2020, 9:29 AM IST

جامعہ تشدد معاملے میں تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی عرضی پر جلد سماعت کی درخواست پر دہلی پولیس نے اس ردعمل کا جوابی حلف نامہ داخل کیا ہے۔ دہلی پولیس نے کہا ہے کہ جامعہ تشدد ایک سوچی سمجھی منصوبے کے تحت کیا گیا تھا۔ اس معاملے کی سماعت آج ہوگی۔

delhi police said jamia violence was preplanned
جامعہ تشدد ایک سوچی سمجھی سازش: دہلی پولیس

جامعہ تشدد کیس میں دہلی پولیس نے کہا ہے کہ جامعہ تشدد کی الیکٹرانک شواہد سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تشدد طلباء کی تحریک کی آڑ میں مقامی لوگوں کی مدد سے کیا گیا تھا۔ دہلی پولیس نے کہا ہے کہ 13 اور 15 دسمبر سنہ 2019 کو تشدد کے معاملے میں تین ایف آئی آر درج کی گئیں۔ اس تشدد میں پتھر، لاٹھی، پٹرول بم، ٹیوب لائٹس کا استعمال کیا گیا۔ اس واقعے میں متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ دہلی پولیس نے کہا کہ دہلی پولیس پر ظلم کرنے کا الزام غلط ہے۔

delhi police said jamia violence was preplanned
جامعہ تشدد ایک سوچی سمجھی سازش: دہلی پولیس

دہلی پولیس نے کہا ہے کہ احتجاج کرنا ہر ایک کا حق ہے لیکن احتجاج کی آڑ میں قانون کی خلاف ورزی کرنا، تشدد اور فسادات میں شامل ہونا ٹھیک نہیں ہے۔ یہ الزام درست نہیں ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی بغیر اجازت کے پولیس احاطے میں داخل ہوئی اور طلبا کے خلاف کارروائی کی۔ دہلی پولیس نے اپنے حلف نامے میں عوامی املاک کو ہوئے نقصان اور ملزمین کی پوری فہرست ہائی کورٹ کو سونپی ہے۔

گذشتہ 22 مئی کو ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت اور دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا تھا۔ درخواست وکیل نبیلہ حسن نے دائر کی ہے۔ درخواست گزار کی جانب سے وکیل اسنیہا مکھرجی نے کہا تھا کہ جامعہ کے بہت سے طلبا کو پولیس نے بلایا اور تفتیش کے نام پر گھنٹوں بیٹھائے رکھا۔ یہاں تک کہ کورونا کے بحران کے دوران بھی پولیس طلبا کو تنگ کر رہی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی حالت آج بھی ویسی ہی ہے جیسے پہلے تھی۔ اس لیے اس معاملے کی جلد سماعت کی جائے۔

گذشتہ 4 فروری کو ہائی کورٹ نے جامعہ تشدد معاملے میں جانچ کی مانگ کرنے والی عرضی پر سماعت ملتوی کر دی تھی۔ سماعت کے دوران سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے چیف جسٹس ڈی این پٹیل کی سربراہی میں بنچ کو بتایا تھا کہ تفتیش ایک اہم موڑ پر ہے اور اسے مکمل ہونے دیا جائے، تب ہی ہم کوئی مناسب جواب دے پائیں گے۔

سماعت کے دوران درخواست گزاروں کی جانب سے سینئر وکیل کولن گونزالویس نے کہا تھا کہ جامعہ کے 93 طلباء زخمی ہوئے ہیں۔ طلباء نے سی سی ٹی وی فوٹیج کے ساتھ شکایت بھی کی۔ انہوں نے للیتا کماری کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان شکایات کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کی جانی چاہئے، تب تشار مہتا نے کہا تھا کہ متعدد ایف آئی آر درج کرنے سے بہتر ہے کہ ایک ایف آئی آر درج کی جائے۔ سماعت کے دوران سینئر ایڈوکیٹ اندرا جے سنگھ نے کہا تھا کہ ہائی کورٹ کے پہلے حکم کی تعمیل نہیں کی گئی ہے، کیونکہ اس پر کوئی جواب داخل نہیں کیا گیا ہے۔ اگر انھیں جواب داخل کرنے کے لیے وقت درکار ہے تو اس کے لیے بھی ایک حلف نامہ داخل کیا جانا چاہئے۔

19 دسمبر سنہ 2019 کو ہائی کورٹ نے طلباء کے خلاف پولیس کی کارروائی پر روک کی مانگ کو مسترد کر دیا تھا۔ عدالت نے مرکزی حکومت اور دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا تھا۔ 19 دسمبر 2019 کو جب عدالت نے طلباء کے خلاف گرفتاری اور پولیس کارروائی روکنے سے انکار کر دیا تو چیف جسٹس ڈی این پٹیل کی کورٹ میں کچھ وکیلوں نے شرم شرم کے نعرے لگائے تھے۔ چیف جسٹس کوئی ردِ عمل دیئے بغیر اٹھ کر اپنے چیمبر میں چلے گئے تھے۔ جس کے بعد 20 دسمبر 2019 کو ہائی کورٹ نے کچھ وکیلوں کی مانگ پر اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے کر کارروائی کرنے کی بات کہی تھی۔

جامعہ تشدد کیس میں دہلی پولیس نے کہا ہے کہ جامعہ تشدد کی الیکٹرانک شواہد سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تشدد طلباء کی تحریک کی آڑ میں مقامی لوگوں کی مدد سے کیا گیا تھا۔ دہلی پولیس نے کہا ہے کہ 13 اور 15 دسمبر سنہ 2019 کو تشدد کے معاملے میں تین ایف آئی آر درج کی گئیں۔ اس تشدد میں پتھر، لاٹھی، پٹرول بم، ٹیوب لائٹس کا استعمال کیا گیا۔ اس واقعے میں متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ دہلی پولیس نے کہا کہ دہلی پولیس پر ظلم کرنے کا الزام غلط ہے۔

delhi police said jamia violence was preplanned
جامعہ تشدد ایک سوچی سمجھی سازش: دہلی پولیس

دہلی پولیس نے کہا ہے کہ احتجاج کرنا ہر ایک کا حق ہے لیکن احتجاج کی آڑ میں قانون کی خلاف ورزی کرنا، تشدد اور فسادات میں شامل ہونا ٹھیک نہیں ہے۔ یہ الزام درست نہیں ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی بغیر اجازت کے پولیس احاطے میں داخل ہوئی اور طلبا کے خلاف کارروائی کی۔ دہلی پولیس نے اپنے حلف نامے میں عوامی املاک کو ہوئے نقصان اور ملزمین کی پوری فہرست ہائی کورٹ کو سونپی ہے۔

گذشتہ 22 مئی کو ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت اور دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا تھا۔ درخواست وکیل نبیلہ حسن نے دائر کی ہے۔ درخواست گزار کی جانب سے وکیل اسنیہا مکھرجی نے کہا تھا کہ جامعہ کے بہت سے طلبا کو پولیس نے بلایا اور تفتیش کے نام پر گھنٹوں بیٹھائے رکھا۔ یہاں تک کہ کورونا کے بحران کے دوران بھی پولیس طلبا کو تنگ کر رہی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی حالت آج بھی ویسی ہی ہے جیسے پہلے تھی۔ اس لیے اس معاملے کی جلد سماعت کی جائے۔

گذشتہ 4 فروری کو ہائی کورٹ نے جامعہ تشدد معاملے میں جانچ کی مانگ کرنے والی عرضی پر سماعت ملتوی کر دی تھی۔ سماعت کے دوران سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے چیف جسٹس ڈی این پٹیل کی سربراہی میں بنچ کو بتایا تھا کہ تفتیش ایک اہم موڑ پر ہے اور اسے مکمل ہونے دیا جائے، تب ہی ہم کوئی مناسب جواب دے پائیں گے۔

سماعت کے دوران درخواست گزاروں کی جانب سے سینئر وکیل کولن گونزالویس نے کہا تھا کہ جامعہ کے 93 طلباء زخمی ہوئے ہیں۔ طلباء نے سی سی ٹی وی فوٹیج کے ساتھ شکایت بھی کی۔ انہوں نے للیتا کماری کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان شکایات کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کی جانی چاہئے، تب تشار مہتا نے کہا تھا کہ متعدد ایف آئی آر درج کرنے سے بہتر ہے کہ ایک ایف آئی آر درج کی جائے۔ سماعت کے دوران سینئر ایڈوکیٹ اندرا جے سنگھ نے کہا تھا کہ ہائی کورٹ کے پہلے حکم کی تعمیل نہیں کی گئی ہے، کیونکہ اس پر کوئی جواب داخل نہیں کیا گیا ہے۔ اگر انھیں جواب داخل کرنے کے لیے وقت درکار ہے تو اس کے لیے بھی ایک حلف نامہ داخل کیا جانا چاہئے۔

19 دسمبر سنہ 2019 کو ہائی کورٹ نے طلباء کے خلاف پولیس کی کارروائی پر روک کی مانگ کو مسترد کر دیا تھا۔ عدالت نے مرکزی حکومت اور دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا تھا۔ 19 دسمبر 2019 کو جب عدالت نے طلباء کے خلاف گرفتاری اور پولیس کارروائی روکنے سے انکار کر دیا تو چیف جسٹس ڈی این پٹیل کی کورٹ میں کچھ وکیلوں نے شرم شرم کے نعرے لگائے تھے۔ چیف جسٹس کوئی ردِ عمل دیئے بغیر اٹھ کر اپنے چیمبر میں چلے گئے تھے۔ جس کے بعد 20 دسمبر 2019 کو ہائی کورٹ نے کچھ وکیلوں کی مانگ پر اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے کر کارروائی کرنے کی بات کہی تھی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.