سنہ 2015 کے لوک سبھا انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) نے کانگریس پر شاندار فتح حاصل کی تھی اور عام انتخابات کے چند ماہ بعد ہی عام آدمی پارٹی نے کرپشن اور عوامی فلاح و بہبود کے موضوع کو اپنی انتخابی مہم بنا کر دہلی کے اسمبلی انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی۔
کیجریوال نے ان لوگوں کو بھی اپنا حامی بنالیا، جن میں وہ لوگ شامل تھے جنہوں نے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔ کیجریوال نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ اگر وہ عام آدمی پارٹی کے حق میں ووٹ دیتے ہیں تو وہ اپنی قومی پارٹی کے ساتھ بے وفائی نہیں کر رہے ہیں اور وہ اس میں کئی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔
اسمبلی انتخابات سے پہلے کیجریوال اور ان کے حامیوں نے لاکھوں ای میلز اور وہاٹس ایپ پیغامات کے ذریعے خود کیلئے ووٹ مانگے تھے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اس مہم میں کیجریوال کو آر ایس ایس یا دوسری ہندتوا جماعتوں کی خاموش تائید حاصل تھی یا نہیں۔
رواں برس کے اسمبلی انتخابات میں بی جی پی کی جارحانہ انتخابی مہم جاری ہے جس دوران وہ دہلی کے ووٹروں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ کیجریوال کی خود کو 'نظریاتی ملحد' کے طور پیش کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا جائے۔
دہلی کے شاہین باغ میں خواتین کی شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی خلاف گزشتہ 55 دنوں سے جاری احتجاج اور مرکزی حکومت کی جانب سے نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این سی آر) کے خوف نے دہلی اسمبلی انتخابی مہم کو ہی بدل کے رکھ دیا ہے۔
کیجریوال نے سوچا تھا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں دہلی میں عام لوگوں کی بھلائی کے لیے بجلی، پانی، اسکول اور ہسپتالوں پر کیے گئے کاموں کی بنا پر اس انتخابات کو جیتنا کافی آسان ثابت ہوگا لیکن دہلی کے وزیر اعلیٰ کی اس دلیل اور سوچ کو چیلنج کیا جارہا ہے ۔
بی جے پی اپنے ووٹروں کو واپس حاصل کرنا چاہتی ہے اور وہ اس بات کو غیر مبہم الفاظ میں واضح بھی کررہی ہے کہ اسے کیجریوال کی سیاست، اس کی ترجیحات اور سیاسی ترجیحات پسند نہیں ہے۔ سنہ 2015 کے برعکس اب کی بار بی جے پی کی دشمن عام آدمی پارٹی ہے۔ بی جے پی چلتے چلتے بھی کانگریس کا تذکرہ نہیں کررہی ہے ۔
دوسرے الفاظ میں دہلی کے انتخابات دو گھوڑوں کے درمیان ریس ثابت ہو رہی ہے اور کانگریس تیزی سے تیسرے پائیدان پر پھسلتی جارہی ہے اس امر کے باوجود بھی کہ گزشتہ سال اپریل مئی میں ہوئے لوک سبھا انتخابات میں اس جماعت نے قومی راجدھانی میں پر اعتمادکار کردگی کا مظاہرہ کیا تھا ۔
کانگریس کے لیڈروں کو یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ دہلی کے انتخابات اس کے بس کی بات نہیں ہے اور بی جے پی کے تقسیمی ایجنڈا کو چیلنج کرنے والا کیجریوال ہے کانگریس نہیں ۔
ان میں سے پارٹی کی جانب سے کئی لوگوں نے ان کوششوں پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔اس لئے یہ حیران کن بات نہیں ہے کہ کئی کانگریس لیڈروں کے رشتہ داروں نے عام آدمی پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے اور خود کیلئے ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو ئے ہیں۔ان میں سے ایک کانگریس کے سابق ممبر پارلیمنٹ مہابل مشرا ہیں جن کے بیٹے نے عام آدمی پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے پارٹی ٹکٹ بھی حاصل کی ۔مشرا کو کانگریس نے پارٹی سے معطل کردیا۔
جس تیزی کے ساتھ دہلی میں کانگریس تحلیل ہورہی ہے اس سے عام آدمی پارٹی کے حمایتوں کا کردار بھی بدل رہا ہے ۔اب عام آدمی پارٹی کے ووٹر کانگریس کی ووٹ جیسی ہے جس کو اقلیتوں کی پشت پناہی حاصل ہے ۔شاہین باغ میں مظاہرین کو اس بات کا غصہ نہیں ہے کہ کیجریوال یا ان کی جماعت میں سے کسی نے وہاں کا دورہ نہیں کیا ۔وہ اس بات سے باخبر ہیں کہ عام آدمی پارٹی کا شاہین باغ کا دورہ اس پارٹی کیلئے سیاسی طور پر نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔
بی جے پی کو کیجریوال کو دہشت گردقرار دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہو رہی ہے ۔بی جے پی شاہین باغ میں جاری احتجاج کیلئے دہلی کے وزیر اعلیٰ کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے ۔
وزیر داخلہ امیت شاہ اس حقیقت کو فراموش کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ دہلی میں امن و قانون کی صورتحال کی ذمہ داری ان کی وزارت کی ہے اور عام آدمی پارٹی شاہین باغ، جامعہ ملیہ یا جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں تشدد کیلئے ذمہ دار نہیں ہے۔گزشتہ ایک ہفتہ میں دہلی میں فائرنگ کے تین واقعات رونما ہو ئے ہیں جن کو انوراگ ٹھاکر جیسے مرکزی وزیر کی نعرہ بازی سے حمایت اور قانونی جواز مل گیا ۔
بی جے پی نے جب شاہین باغ کی خلاف محاذ نہیں کھولا تھا اور اس احتجاج کو ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی ایک کوشش نہیں قرار دی تھی تب دہلی میں عام آدمی کی حالت بالکل اچھی تھی ۔اس بات میں اتفاق رائے پایا جارہا تھا کہ سنہ 2015 میں دہلی انتخابات جیت کر عام آدمی پارٹی کامیابی سفر جاری رکھ سکتا ہے۔گزشتہ کچھ ایک ہفتوں سے لگ رہا ہے کہ بی جے پی نے اپنی پوزیشن بہتر کی ہے ۔
اب لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ کیجریوال ان انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل نہیں کر پائیں گے لیکن ایسا کہنے والے اس بات کوملحوظ نظر نہیں رکھ رہے ہیں کہ اگر کانگریس کے ووٹ عام آدمی پارٹی کو ملتے ہیں تو یہ جماعت اچھی کار کردگی کا مظاہرہ دہرا سکتی ہے۔
حالیہ انتخابی جائزے میں کہا گیا تھا کہ عام آدمی پارٹی 70 اسمبلی حلقوں میں سے 59 سے 60 پر کامیابی حاصل کر سکتی ہے ۔اگر یہ صحیح ثابت ہوا تو یہ نریندرا مودی اور امیت شاہ کی قیادت کے ساتھ ساتھ کانگریس پارٹی کیلئے بھی ایک دھچکا ہو گا۔