انہوں نے کہاکہ بھارت میں انہی کو حق ملا ہے جن لوگوں نے متحد ہوکر اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کی ہے۔ انہوں نے دلت سماج اور اقلیتوں کو متحد ہوکر اپنے حقوق کے لئے لڑنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بابائے صاحب امبیڈکر نے کہا ہے کہ پڑھو، متحد ہوجاؤ اور جدوجہد کرو۔ انہوں نے کہاکہ بابائے صاحب کے ان باتوں پر عمل کرکے دونوں طبقے ملک میں اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔ ورنہ یہاں کوئی بھی ان کو آسانی سے حق دینے والا نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ جس طرح کی پسماندگی دلت سماج میں ہے اسی طرح کی پسماندگی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں میں بھی ہے۔ مسلم سماج اس لئے بھی پسماندہ ہے کیوں کہ وہ متحد ہوکر کبھی اپنے مسائل کے لئے جدوجہد نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ہر سماج کی متحد ہوکر جدوجہد کرنے والی تنظیم ہے لیکن مسلمانوں کی اس طرح کی کوئی تنظیم نہیں ہے جو مسلمانوں کی تکلیف بیان کرے اور حکومت کے سامنے ان کے مسائل کو شدت کے ساتھ رکھ سکے۔
مہمان خصوصی مسٹر پراچہ نے کہاکہ دفعہ 341گروپ کا استعمال کرتی ہے تاکہ شناخت کی جائے کون سا سماج پسماندہ ہے اور کسی سماج کی خاص طرح کی پسماندگی ہوسکتی ہے جسے دور کرنا حکومت کا کام ہے۔ انہوں نے کہاکہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کی بات اسی لئے ضروری ہے تاکہ پسماندہ طبقات اور اوبی سی، ایس سی، ایس ٹی کے حقیقی اعداد و شمار جمع کئے جائیں اور اسی بنیاد پر ان کی فلاح بہبود، ریزرویش وغیرہ کے امور انجام دئے جاسکیں۔
یہ بھی پڑھیں: سی اے اے اور این آرسی کیس میں جلد کامیابی ملے گی: محمود پراچہ
انہوں نے زور دیا کہ دلت اور اقلیتوں کے درمیان ایسے افراد کو سیاست میں آنے کی ضرورت ہے جو اپنے سماج کو کچھ دے سکیں۔ انہوں نے پاسی سماج کے صدرپدم شری اور سابق ڈائرکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر جگدیش پرساد پاسوان کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے پاسی سماج کو متحد کرنے میں نمایاں رول ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر جگدیش پرساد اس اجلاس کے مہمان خصوصی تھے۔
یو این آئی