جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق اسٹوڈنٹ لیڈر عمر خالد نے اپنے دوستوں بنوجیوتسنا لہری اور انیربان بھٹاچاریہ کو لکھے ایک خط میں کورونا وبا کے سبب ان کی ضمانت کی کاروائی میں مزید تاخیر کا خدشہ ظاہر کیا۔ انہوں نے لکھا کہ معمول کے اوقات میں بھی یہ کاروائی اذیت ناک ہوتی ہے جبکہ ایسے حالات میں یہ انتہائی ظالمانہ رخ اختیار کرگئی ہے۔
عمر خالد نے اپنے خط کے ابتدا میں پنجرا ٹوڈ کی کارکن نتاشا نروال سے اظہار تعزیت کیا۔ نتاشا کے والد مہاویر نروال کی کچھ روز قبل کورونا سے موت ہوئی تھی۔ اس کیس میں نتاشا بھی ملزم ہیں۔
خط میں عمر نے نتاشا کی گرفتاری کے بعد ان کے والد کے بیان کو یاد کیا جس میں انہوں نے اپنی بیٹی پر فخر کا اظہار کیا تھا اور فسادات کی سازش کے الزام کو مضحکہ خیز قرار دیا تھا۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی بے گناہی کا دفاع کیا تھا۔
عمر خالد نے لکھا کہ جس طرح جیل سے باہر وبائی بیماری نے ہمارے عزیز و اقارب کو پریشان کر رکھا ہے اسی طرح جیل میں رہنے والوں کی زندگی کو بھی دوبھر کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روزانہ اخبارات میں انتقال کی خبریں پڑھنے سے انتہائی مایوسی اور دکھ کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ایسے حالات میں جیل کی زندگی مزید گھٹن سے دوچار ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ گھروالوں سے بات کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں لیکن جب بات شروع ہوتی ہے تو وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ خالد کے اپریل میں والدہ اور دیگر رشتہ داروں کے کوویڈ پازیٹیو آنے اور چچا کی طبیت نازک ہونے کو یاد کیا جبکہ اس دوران خالد کو بھی کورونا سے متاثر پایا گیا تھا۔ عمر خالد نے سوالیہ انداز میں لکھا کہ ’کیا حکومت غیرمعمولی حالات کی بنا پر سیاسی قیدیوں کو رہا کریگی؟ خالد نے مزید کہا کہ رہائی کےلیے اس کے پاس صرف تھوڑی امید باقی ہے۔