نئی دہلی: دہلی فسادات اور غریبوں کے لیے اپنے قلم سے لڑائی لڑنے والے معروف سماجی کارکن اور جماعت اسلامی ہند کے رکن ایڈووکیٹ محمد انور کے انتقال سے ان کے چاہنے والے غمزدہ ہیں۔ محمد انور کی گزشتہ دنوں کشمیر میں ایک جھیل میں وضو بنانے کے دوران پھسلنے سے چوٹ لگنے اور پانی میں ڈوب جانے کی وجہ سے موت ہوگئی، ان کی موت سے جامعہ نگر علاقہ میں غم کا ماحول ہے۔ ان کے انتقال پر تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں کثیر تعداد میں ملی، سماجی اور سیاسی رہنماؤں نے شرکت کرکے ان کی خدمات کو سراہا اور ان کی مغفرت کے لیے دعا کی۔ Advocate of Mohammad Anwar Demise
ابوالفضل میں واقع ملی ماڈل اسکول میں منعقدہ تعزیتی نشست میں مرحوم محمد انور کی اکلوتی بیٹی طوبیٰ انور نے اشکبار آنکھوں اور لرزتے ہونٹوں سے کہا کہ میرے والد ہمیشہ غریبوں اور جیل میں قید بے قصور افراد کے لیے فکر مند رہتے تھے، 2020 کے دہلی فسادات میں کئی متاثرین کے لیے انہوں نے مفت میں کیسز کو ہینڈل کیا جب کہ ایسے وقت میں کوئی گواہی دینے کے لیے تیار نہیں تھا تو انہوں نے لوگوں کو گواہی دینے کے لیے راضی کیا یہی وجہ ہے کہ کئی بے قصور جو جیل میں بند تھے وہ رہا ہوئے۔
طوبیٰ انور نے کہا کہ ان کے والد غریبوں کے گھروں میں خاموشی سے کپڑے پہنچا دیا کرتے تھے، انہوں نے کہا کہ وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلیں گی اور جو کام انہوں نے ادھورا چھوڑا ہے اسے آگے بڑھائیں گے۔ ایڈووکیٹ محمد انور کے چھوٹے بھائی محمد نعیم نے بتایا کہ میرے بھائی سب سے الگ تھے وہ بچپن سے ہی غریب اور پریشان لوگوں کے لیے فکرمند رہتے تھے۔ ان کی موت سے ہم سب لوگ صدمے میں ہیں۔
محمد انور کے قریبی سرفراز انور جنید نے کہا کہ ایڈووکیٹ محمد انور اتنی جلدی ہمارا ساتھ چھوڑ جائیں گے ایسا تو سوچا بھی نہیں تھا، ابھی تو بہت سارے بے گناہوں، بے قصوروں کے مقدمات لڑنے تھے اور بہت سے انصاف سے محروم لوگوں کو انصاف دلانا تھا، وہ بہت نیک دل، ملنسار، خوش مزاج شخصیت کے حامل تھے جب بھی ملتے مسکرا کر ملتے، بڑی محبت کرتے مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ جس سے بھی ملتے جیسے اس سے ہی خاص محبت ہے، ہر تحریکی فرد سے خصوصی لگاؤ کا اظہار کرتے، دہلی ہائی کورٹ یا سُپریم کورٹ کی پریکٹس کے باوجود ایسی سادگی اور متانت تھی کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ آپ کوئی وکیل ہیں۔
اس کے علاوہ سینیئر صحافی محمد غنی نے کہا کہ ایڈووکیٹ محمد انور جیسے لوگ اس دنیا میں کم ہی ملیں گے اتنا جلدی ان کا اس دنیا سے چلے جانا بہت زیادہ افسردہ کرنے والی بات ہے۔ نگینہ کے رہنے والے محمد سالم نے بتایا کہ محمد انور کے انتقال کے بعد کئی خوبیاں سننے کو ملی ہیں وہ ایک سنجیدہ مزاج اور اصول پرست کے ساتھ ساتھ غریبوں کی پریشانی کو حل کرنے والے انسان تھے۔ سید فرمان مسعود نے کہا کہ ایڈووکیٹ انور کا جانا بہت افسوس ناک ہے وہ غریبوں کی مدد چھپ کر کرتے تھے۔ محمد عبدالستار نے کہا کہ ایڈووکیٹ محمد انور تحریکی مزاج رکھتے تھے۔ ان کی خدمات غریبوں میں زیادہ رہی ہے ان کے اچانک چلے جانے سے افسوس ہوتا ہے۔