آل انڈیا لائرس کونسل نے آج وکلا برادری پر پولیس کی کارروائیوں اور چھاپہ ماری کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان واقعات کی سپریم کورٹ کے سابق جج کے زیر نگرانی تحقیق کرانے کے لیے کمیشن تشکیل دی جائے۔
پریس کلب آف انڈیا میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اے آئی ایل سی کے ذمہ داران نے مختلف بار کونسلز اور دیگر وکلاء تنظیموں کی طرف سے پولیس ایکشن کی مذمت کی اور متاثر وکلا کے ذریعہ اظہار یکجہتی کے قدم کی تعریف کی۔
لائرس کونسل نے اترپردیش کے ایٹا میں ضلعی عدالت کے ایک وکیل پر پولیس حملے کی مذمت کی۔
واضح رہے کہ یو پی پولیس وکیل کے مکان کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئی تھی اور وکیل (جو ایڈووکیٹ کے لباس میں تھا) کو گھسیٹ کر باہر نکال کر اس کی بے رحمی سے پٹائی کی، اس واقعے کی ویڈیو حال ہی میں وائرل ہوگئی۔
یہ بات بھی حیران کن ہے کہ دہلی کے نامور وکیل محمود پراچہ کے دفتر پر پولیس نے چھاپہ مارا، ان کے سرکاری ای میل آئی ڈی پر موجود 'دستاویزات' اور 'آؤٹ باکس کا میٹا ڈاٹا' غیر قانونی طور پر تلاش کرنے کے لیے اسے اپنے ساتھ لے گئے نیز ایڈووکیٹ جاوید علی کے دفتر پر چھاپہ سے دہلی پولیس کے خلاف سخت غم و غصہ اور مذمت کا سلسلہ شروع ہوا۔ پولیس کی تازہ کارروائی نے وکلاء کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کو بھی مشتعل کردیا ہے۔
اے آئی ایل نے ان معاملات میں پولیس کے قابل مذمت طرز عمل پر اپنی سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور تمام متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کے ظالمانہ طرز عمل کے لیے جو متعلقہ اور قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے ان سب کے خلاف سنجیدہ اور عملی کارروائی کی جائے۔
کونسل کے سیکریٹری جنرل شرف الدین احمد نے کہا کہ بھارت میں پولیس کو مغربی ممالک کی پولیس سے سبق لینا چاہیے اور کسی سیاسی دباو کے بغیر دستور اور قانون کے تحت کام کرنا چاہیے۔
انہوں نے وکلاء پر چھاپے کے واقعات کی تحقیقات پر کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا اور یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ نے پولیس فورس کو سیاسی اثرات سے پاک کرنے کے لیے جو ہدایات جاری کی ہیں، اس پر فوراً عمل کیا جائے۔
اس موقع پر اے آئی ایل سی حکومت کو ایک نئے ماڈل پولیس قانون کا مسودہ تیار کرنے کا مطالبہ کیا جو پولیس ایکٹ ، 1861 کی جگہ لیں۔
اے آئی ایل سی ، ستمبر 2006 میں سپریم کورٹ کے ذریعہ پولیس فورس میں اصلاحات اور ریاست کے حکومتوں کو جاری کردہ مختلف ہدایات پر عمل کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔