نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں وزیر اعظم نریندر مودی پر بی بی سی کی دستاویزی فلم کی اسکریننگ بدھ کے روز شام 6 بجے کرائے جانی تھی۔ تاہم اس سے قبل پولیس نے متعدد طلبہ کو حراست میں لے لیا ہے۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت میں ایک طالبہ نے طلبہ کو ہراساں کرنے کا الزام لگایا ہے۔ طالبہ نے کہاکہ' ایس ایف آئی نے کل ایک پوسٹر ریلیز کیا تھا کہ ہم کیمپس میں اس دستاویزی فلم کی اسکریننگ کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ' یہ طلبہ کا جمہوری حقوق ہے کہ ہم یونیورسٹی کمپس میں کسی بھی چیز کی اسکریننگ کرسکتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پولیس نے تین طلبہ کو بی بی سی کی دستاویزی فلم کی اسکریننگ کا اعلان کرکے ماحول خراب کرنے کے الزام میں حراست میں لیا ہے۔ طلباء کی حراست کے خلاف احتجاج کرنے والے سات دیگر طلباء کو بھی پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔ یہ کارروائی چیف پراکٹر کی شکایت پر کی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق واقعے کے حوالے سے جامعہ کی سیکیورٹی سخت کردی گئی ہے۔
ہنگامہ آرائی کے درمیان جامعہ کے تمام دروازے بند کردیے گئے۔ طلبہ کو داخلے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ جامعہ کے طلبہ نے کہا تھا کہ وہ بی بی سی کی دستاویزی فلم 'انڈیا: دی مودی کوشچن' کی اسکریننگ کریں گے لیکن انتظامیہ نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ تاہم طلباء آج شام 6 بجے گیٹ نمبر 8 پر ڈاکومنٹری دکھانے پر بضد ہیں جس پر یونیورسٹی نے طلبا کو نوٹس جاری ہے۔
واضح رہے کہ کل رات جے این یو میں بی بی سی کی دستاویزی فلم دکھانے کو لے کر طلباء کے دو گروپوں میں جھڑپ ہوئی۔ اب پولس اس پورے معاملے کی جانچ کر رہی ہے۔ وہیں جے این یو اسٹوڈنٹس یونین کی صدر آئشی گھوش نے کہا ہے کہ وہ آج بی بی سی کی دستاویزی فلم کی اسکریننگ کریں گی۔ بتادیں کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم سن 2002 کے فسادات پر مبنی ہے۔ اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی کے گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ بی بی سی کی دستاویزی پر حکومت نے سوشل میڈیا کمپنیوں سے اسے ہٹانے کو کہا ہے، جب کہ اپوزیشن نے اس اقدام پر تنقید کی ہے۔
پی ایم مودی کی حکومت نے دستاویزی فلم 'انڈیا: دی مودی کوشن' کو 'پروپیگنڈا ' قرار دیا ہے۔سنہ 2002 میں گجرات کے گودھرا میں یاتریوں پر حملہ کے بعد ریاست میں تین دن کے فساد کے دوران ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ الزام ہے کہ حکومت نے جان بوجھ کر شروع ہونے والے فسادات کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے تھے۔
مزید پڑھیں: