کل ہند مجلس اتحاد المسلمین دہلی کے صدر کلیم الحفیظ نے کہا کہ بیرسٹر اسدالدین اویسی کی سرکاری رہائش گاہ پر ہتھیاروں سے حملہ کرنے والے ملزمین کو دو ہفتہ بعد ضمانت دینا انصاف کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔ پولیس، انتظامیہ اور میڈیا کے بعد اب عدلیہ میں بھی مسلمانوں کے ساتھ تعصب برتا جارہا ہے۔ حکومت کی جانب سے کورٹ میں اُن ججز کا تبادلہ کردیا جاتا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ انصاف کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کسی ممبر پارلیمنٹ کے گھر پر جان لیوا حملہ کرنا کوئی معمولی جرم نہیں ہے۔ لیکن پولس نے ان مجرموں کے خلاف معمولی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے ان کی ضمانت کی راہیں پہلے ہی ہموار کردی تھیں، اول تو پولس ان کے خلاف ایف آئی آر کرنے کے موقف میں ہی نہیں تھی، مجلس کارکنان کے دباؤ میں پولیس نے ایف آئی آر درج کیا ، اس کے باوجود پولس نے ان کے خلاف معمولی دفعات لگائیں۔
کلیم الحفیظ نے مزید کہا کہ اس کے برعکس دہلی فسادات میں اپنا دفاع کرنے والے اور تماشا دیکھنے والے نوجوانوں پر یو اے پی اے کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی، سی اے اے اور این آرسی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جے این یو کے طلبہ پر ملک مخالفت اور غداری کے الزامات لگاکر انہیں گرفتار کیا گیا، ان کا مستقبل تباہ کردیا گیا۔
مزید پڑھیں:
انہوں نے کہا کہ سرکار ان ججز کا تبالہ کردیتی ہے جو ذرا بھی مظلوم مسلمانوں کے لیے انصاف کا جذبہ رکھتا ہے جیسا کہ دہلی فسادات کی شنوائی کر رہے ونود کمار کا تبادلہ دو روز پہلے کردیا گیا ہے، ان کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے دہلی پولس کی غلطیوں کی نشان دہی کی تھی، اس سے پہلے جج مرلی دھرن کو بھی اسی جرم کی سزا دی گئی تھی۔
کلیم الحفیظ نے کہا کہ ملک پر فسطائیت کا قبضہ ہے، جمہوریت ختم ہوگئی ہے، سرکار کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو گاڑیوں سے روندا اور کچلا جارہا ہے۔ اگر انصاف پسند یکجا نہیں ہوئے تو ظلم کی آندھی سب کچھ تباہ کردے گی۔