مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے پریس کانفرنس منعقد کی گئی جس کو مخاطب کرتے ہوئے بابری مسجد ملکیت مقدمہ سے وابسہ ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں تضاد پایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سبھی مسلم فریقوں کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلہ پر نظرثانی کی درخواست دائر کی جائے گی اور ریویو کا ہمیں حق حاصل ہے۔
ظفریاب جیلانی نے ایودھیا فیصلہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے ہمارے کئی نکات کو مانا ہے جبکہ بعض معاملات پر تضاد پایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ کسی کی جیت ہے اور نہ کسی کی ہار ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا اس کے بعد تمام مسلم فریقوں سے مشاورت کے بعد کوئی قطعی فیصلہ کیا جائے گا۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن ظفریاد جیلانی نے مزید کہا کہ عدالت کے فیصلہ سے ہم مطمئن نہیں ہیں اور اس فیصلہ کے خلاف 30 دن کے اندر نظرثانی کی درخواست کو داخل کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بھارت کے سیکولر کردار پر پورا بھروسہ ہے اور ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں جبکہ ہم یہ ہرگز نہیں مانتے کہ یہ فیصلہ کسی کے دباؤ میں کیا گیا ہے۔ ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے چند نکات پر اعتراض ہے۔
ظفریاب جیلانی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں جہاں ایک طرف ہندوں کی آستھا کو مانا ہے وہیں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو نظرانداز کیا ہے۔
ایس آئی کی رپورٹ کے حوالہ سے انہوں ن کہا کہ ایس آئی نے کبھی بھی مندر ہونے کی بات نہیں کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ مانا ہے کہ متنازعہ زمین پر مسلمانوں کا قبضہ رہا ہے۔
ظفریاب جیلانی نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مسجد کا کوئی متبادل نہیں ہے اس کا تعلق سیدھے اللہ سے ہے۔
انہوں نے فیصلہ میں 5 ایکڑ اراضی دینے کی بات پر کہا کہ مسجد کی اراضی کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ مسجد جب ایک بار بن جاتی ہے تو تاقیامت وہ مسجد ہی رہتی ہے۔ اس کی زمین کی کوئی قیمت نہیں ہوتی جبکہ 500 ایکڑ اراضی بھی ہمیں مسجد کے بدلہ میں قبول نہیں ہے۔
ظفریاب جیلانی نے کہا کہ ہم سرپیم کورٹ کے وقار کو ہمیشہ برقرار رکھیں گے اور اس کے فیصلہ کا احترام کریں گے۔ انہوں نے تمام بھارتیوں سے امن کو برقرار رکھنے کی اپیل کی۔
اس موقع پر بابری مسجد ملکیت مقدمہ سے وابستہ ایک اور وکیل شمشاد نے کہا کہ ہمیں آئین پر پورا بھروسہ ہے اور ہم قانون کے مطابق آگے قدم بڑھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک قانونی جنگ ہے جبکہ سپریم کورٹ نے ہمارے بیشتر نکات کو مانا ہے اور ہم عدالتی کاروائی پر پورا بھروسہ کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی ہند کے امیر سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں تضاد پایا جاتا ہے جس سے ہمیں مایوسی ہوئی ہے لیکن ہم عدالت کے فیصلہ کا احترام کرتے ہیں اور ملک میں قانون کی بالادستی کو فروغ دینے کےلیے ہم کوشاں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ فیصلہ سے ہم پوری طرح متفق نہیں ہے تاہم انہوں نے عوام سے پرامن رہتے ہوئے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی اپیل کی۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی نے کہا کہ ایودھیا معاملہ پر سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آیا ہے ہم اسے تسلیم کرتے ہیں انہوں نے انتشار سے بچنے کی تمام بھارتیوں سے اپیل کی ہے۔
پریس کانفرنس میں قاسم رسول الیاس، کمال فاروقی کے علاوہ دیگر مسلم رہنما شریک رہے۔