اُن کی وفات پر انجمن ترقی اردو (ہند) نے ایک تعزیتی قرار داد پاس کی جس میں اُن کی شخصیت اور خدمات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی اور کہا گیا کہ وہ ایک ہردلعزیز اور ممتاز شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ متعدد اہم خوبیوں اور صفات کے حامل انسان بھی تھے۔
وہ انجمن کی مجلسِ عاملہ کے معزز رکن تھے۔ اُن کے انتقال سے انجمن اپنے ایک دیرینہ اور مخلص رکن سے محروم ہوگئی۔
واضح رہے کہ گلزار دہلوی 7 جولائی 1926 کو دہلی کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد پنڈت تربھون ناتھ زتشی گلزار دہلوی اور والدہ رانی زتشی دونوں اپنے زمانے کے معروف شاعر تھے۔
ان کی والدہ کا تخلص بیزارؔ تھا۔ گلزار دہلوی کو زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ انہوں نے منفرد لب و لہجے کے شاعر کے طور پر اُردو دُنیا میں شناخت قائم کی۔
آزادی کے بعد بھارت میں اُردو زبان و ادب کی بقا اور ترقی و ترویج میں انہوں نے غیر معمولی کردار ادا کیا نیز پوری زندگی قومی و بین الاقوامی سطح پر اُردو کی مشترکہ تہذیب کی نمائندگی کرتے رہے۔
گلزار دہلوی کی مطبوعات میں 'گلزارِ غزل' اور 'کلّیاتِ گلزار دہلوی' ہیں جب کہ ان کی شخصیت اور خدمات پر لکھی جانے والی کتابوں میں 'کچھ دیکھے کچھ سنے' اور 'مشاعرہ جشنِ جمہوریت 1973' شامل ہیں۔
موقر رسالہ 'چہارسو' نے گلزار دہلوی کی شخصیت اور ان کی خدمات پر مشتمل خصوصی شمارہ شائع کیا۔
وہ 'سائنس کی دنیا' کے ایڈیٹر رہے، جو 1975 میں حکومتِ ہند کے ذریعے شائع ہونے والا پہلا اُردو کا سائنسی رسالہ تھا۔
گلزار دہلوی کی علمی و شعری خدمات کے اعتراف میں انہیں متعدد انعامات و اعزازات سے سرفراز کیا گیا۔
انجمن ترقی اردو (ہند) محسوس کرتی ہے کہ گلزار دہلوی کی وفات سے ایک زرّیں عہد کا خاتمہ ہوگیا۔
وہ بلاشبہ شعری و ادبی محفلوں کی جان ہوا کرتے تھے نیز ملک کی مشترکہ تہذیب و تمدن کے امین اور پاسدار تھے۔ انجمن دعا گو ہے کہ خدا مرحوم کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے اور پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔