دہلی: دہلی ہائی کورٹ سے 123وقف جائیدادوں پر دہلی وقف بورڈ کو بڑی راحت ملی ہے، جس کے تحت عدالت نے 123 متنازع وقف جائیدادوں پر دہلی وقف بورڈ کا انتظامی حق تسلیم کرتے ہوئے مرکزی ایجنسیوں کو یہ ہدایت دی کہ وہ مذکورہ جائیدادوں پر ضروری سروے اور مناسب مواقع پر معائنہ کر سکتی ہیں، تاہم اس بات کا خیال رہے کہ اس سروے سے ان جائیدادوں پر دہلی وقف بورڈ کے انتظامی اختیارات پر کم سے کم خلل اندازی ہو اور وقف بورڈ کا انتظامی اختیار متاثر نہ ہو۔
وقف بورڈ کے چئرمین امانت اللہ خان نے کہا کہ یہ بہت بڑی راحت کی خبر ہے کہ عدالت عالیہ نے ان تمام 123 وقف جائیدادوں پر دہلی وقف بورڈ کا انتظامی اختیار نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اسے جاری رکھنے کی ہدایت دی اور مرکزی ایجنسیوں کو واضح ہدایت دی کہ وہ ان جائیداد کا معائنہ اور سروے کرسکتی ہیں، تاہم یہ خیال رہے کہ اس دوران وقف بورڈ کے انتظامی اختیار میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔
امانت اللہ خان نے آگے کہا کہ جس طرح سے 19فروری کو جاری ایل اینڈ ڈی او نے اپنے ایک خط کے ذریعہ وقف بورڈ کے انتظامی اختیارات کو ختم کردیا تھا وہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد دہلی وقف بورڈ کو واپس مل گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ایل اینڈ دی او کے اس آرڈر کے خلاف دہلی ہائی کورٹ گئے تھے جہاں کئی تاریخیں لگیں اور وقف بورڈ کی ٹیم نے بہت محنت کے ساتھ مقدمہ کی پیروی کی جس کے لیے میں ان کو مبارکباد دیتا ہوں اور اس فیصلہ کے لئے معزز جج منوج اوہری کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
غور طلب ہے کہ 123وقف جائدادوں کا معاملہ تقریبا 1911 سے چلا آ رہا ہے اور اس معاملہ پر مرکزی حکومت اب تک کئی کمیٹیاں بنا چکی ہیں تاہم کئی کمیٹیوں کی رپورٹ کے باوجود نہ تو ان جائیدادوں پر حتمی فیصلہ لیا گیا اور نہ ہی یہ جائیدادیں مکمل طور پر وقف بورڈ کے حوالے کی گئیں، حالانکہ ان کا انتظام اور انصرام اور تمام انتظامی اختیارات شروع سے ہی وقف بورڈ اور اس سے قبل وقف معاملات دیکھنے والے اداروں کے پاس تھی، لیکن تنازعہ بنا رہا۔
سال 2014 میں اس وقت کی مرکزی حکومت نے برنی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں یہ تمام 123جائیدادیں وقف بورڈ کے حوالے کردی تھیں مگر حکومت بدلنے کے بعد اس معاملہ پر پھر سے ایک نئی دو رکنی کمیٹی بنا دی گئی، جسے وقف بورڈ نے عدالت میں چیلنج کیا کیونکہ سابقہ کمیٹی کی رپورٹ دہلی وقف بورڈ کے ساتھ شئیر نہیں کی گئی اور نہ ہی اس کی سفارشات منظر عام پر لائی گئیں۔
یہ معاملہ اس وقت مزید پیچیدہ ہوگیا جب مرکزی حکومت کے ڈپارٹمنٹ ایل اینڈ ڈی او نے فروری 2023 میں اچانک نوٹس جاری کرتے ہوئے ان تمام 123وقف جائدادوں سے وقف بورڈ کو نہ صرف بے دخل کرنے کا حکم جاری کردیا بلکہ وقف بورڈ کی ان جائیدادوں پر انتظامی اختیارات کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ غور طلب ہے کہ یہ تمام جائدادیں دہلی کے مختلف مقامات پر واقع ہیں اور ان میں سے اکثر جائدادیں مساجد، قبرستان، درگاہیں یا کربلا ہیں۔
مزید پڑھیں: Delhi Waqf Properties دہلی ہائی کورٹ نے وقف کی 123 جائیدادوں کو پھر سے وقف بورڈ کے حوالے کیا، امانت اللہ خان
دراصل یہ جائیدادیں شروع سے ہی وقف کی ہیں تاہم تنازعہ کی اصل وجہ یہ ہے کہ انگریزوں نے جب کلکتہ کی بجائے دہلی کو دار الحکومت بنانا چاہا تو دہلی کے اور بہت سے مقامات ایکوائر کرنے کے ساتھ بہت سے مقامات کو بھی ایکوائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو کے وقف تھے جس کی مخالفت ہوئی اور نتیجتاً یہ جائیدادیں ایکوائر نہیں کی گئیں، تاہم ایل اینڈ ڈی او ڈپارٹمنٹ جو کہ پہلے سرکار میں دولت مدار کے نام سے جانا جاتا تھا اس کے کاغذات میں یہ جائیدادیں جو کہ شروع سے ہی وقف معاملات کے ماتحت چلی آرہی تھیں اس میں ملکیت کے کالم میں وقف کے کسی ادارہ کا نام لکھنے کی بجائے سرکار دولت مدار تحریر کردیا گیا جس کی وجہ سے ایل اینڈ ڈی او ڈپارٹمنٹ کو ان جائدادوں پر دعوی کرنے کا موقع ہاتھ آگیا۔ بہر حال ہائی کورٹ نے دہلی وقف بورڈ کے انتطامی کنٹرول کو تسلیم کرتے ہوئے اسے آگے بھی باقی رکھنے کا حکم جاری کیا ہے اور اب اس معاملہ کی اگلی سماعت 6 نومبر کو ہوگی۔