دہلی: مولانا کلیم صدیقی کی یوپی اے ٹی ایس کی جانب سے گرفتاری کی خبر ملک کے تمام انصاف پسند شہریوں کے لئے باعث تسویش ہے۔ مولانا کی گرفتاری پر صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'تبدیلی مذہب کے الزام میں مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری کو جس طرح سے میڈیا پیش کررہا ہے، وہ قابل مذمت اور باعث تسویش ہے'
اقلیت اور خاص کر کے مسلمانوں کے معاملہ میں میڈیا کا جج بن کر انہیں مجرم بناکر پیش کرنا جرنلزم کے پیشے کے ساتھ بددیانتی ہے۔ میڈیا کے ٹرائل سے پوری دنیا میں بھارت کی شبیہ خراب ہورہی ہے۔ نیز انصاف کی جدوجہد کرنے والوں پر عرصہ حیات تنگ ہو جاتا ہے۔
مولانا محترم پر غیر قانونی طریقہ سے مذہب تبدیل کرانے اور بیرونی ممالک سے فنڈنگ حاصل کرنے جیسے مختلف الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ یہ سارے الزامات سراسر بے بنیاد اورغلط ہیں، کیونکہ کسی غیر مسلم کو جبرا مسلمان نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ عقیدہ جاننے کا نہیں بلکہ ماننے کا نام ہے۔
انہوں نے فنڈنگ کے تعلق سے کہا کہ مولانا کلیم صدیقی ہریانہ، اور پنچاب کے ان مختلف علاقوں میں فلاحی کام کرتے ہیں۔ جہاں مسلمان بہت کم ہیں اور دین سے بالکل ناواقف ہیں اور وہ اپنے آپ کو صرف مسلمان سمجھتے ہیں۔ ان جیسے لوگوں کو دین اسلام سے روبرو کرانے کے لیے مدارس قائم کر رکھے ہیں۔
مزید پڑھیں:
وہاں وہ مدارس پر پیسہ خرچ کرتے ہیں، نہ کہ غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ اگر جبرا لالچ دے کر مسلمان بنایا جاسکتا تھا تو خلیج اور خاص کر سعودی عرب میں پچاسوں لاکھ غیر مسلم کام کرتے ہیں، ان کو مسلمان بنادیا جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ اسلام جاننے کا نہیں بلکہ دل سے ماننے کا نام ہے۔
اخیر میں مولانا مدنی نے کہا کہ 'موصوف کی گرفتاری نے ایک بار پھر کئی سوال کھڑے کردیے ہیں۔ اور ان کی گرفتاری کو ہند و مسلم منافرت کو فروغ دینے کی مذموم کوشش قرار دیا۔
مولانا مدنی نے کہا کہ تمام انصاف پسند لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فرقہ پرستوں کی اس مذموم کوششوں کی بھرپور مخالفت کریں کیونکہ فرقہ پرستی ملک کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔