نئی دہلی: تشدد کے سلسلے میں گرفتار کیے گئے مسلم نوجوانوں کے وکیل ایڈوکیٹ طاہر حسین نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے سے فون پر بات چیت کے دوران بتایا کہ 11 دسمبر کو جیل میں ان کے موکل سمیت دیگر کچھ افراد کے ساتھ لاٹھی ڈنڈے سے تشدد کیا گیا، اس دوران انہیں مذہب کی بنیاد پر گالیاں بھی دی گئی۔
غور طلب ہو کہ ریاست ہریانہ کے نوح ضلع میں گذشتہ دنوں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات تشدد کے سلسلے میں گرفتار 7 ملزمان کے رشتہ داروں نے الزام لگایا ہے کہ انہیں جیل کے عملے کے ذریعہ زدو کوب کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ملزمان کے وکیل کے مطابق ان کے ساتھ تشدد مزہب کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ اسی دوران ملزمان کے رشتہ داروں نے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی ہے، جس میں پولیس عملے کے خلاف کاروائی اور جوڈیشیل انکوائری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ رواں برس جولائی کے مہینے میں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے زیر اہتمام برج منڈل جل ابھیشیک یاترا کے دوران نوح میں تشدد ہوا تھا۔ اس تشدد میں نوح سمیت ہریانہ کے مختلف اضلاع میں بھی فسادات ہوئے اور مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:
- نوح فساد میں ملزم بنایا گیا ایک اور بے گناہ ضمانت پر رہا، اب تک تین ملزمین کی ضمانت عرضداشتیں منظور
- نوح تشدد کیلئے دائیں بازوں کی تنظیمیں، مونو مانیسر اور یاترا ذمہ دار، فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں دعویٰ
انہوں نے بتایا کہ اس معاملے کی جانکاری ملنے کے بعد انہوں نے پولیس عملہ سے اس کی شکایت کی جس پر جیل کے عملے نے تمام الزامات کو مسترد کردیا جس کے بعد انہوں نے عدالت کا رخ کیا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ جیل کے عملے نے قیدیوں کو جیل کی آٹا چکی میں زبردستی ڈالا جہاں ان پر تشدد کیا گیا اور انہیں کوئی طبی امداد فراہم نہیں کی گئی۔ نوح میں چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت نے مبینہ واقعے کے پانچ دن بعد ہفتے کے روز قیدیوں کے طبی معائنہ کا حکم دیا ہے۔