جدید دور میں جہاں سائنس نے طرقی کے نئے مناظر طے کیے اور لوگوں کو ہر ممکن سہولیت فراہم کی وہیں کشمیر میں آج بھی لوگوں کو سحری کے لیے سحر خان رواتی طریقے سے جگاتے ہیں۔ آج لوگوں کے پاس موبائل فون ہے۔ اس میں وہ الارم سیٹ کر کے کسی بھی وقت جاگ سکتے ہیں لیکن سحر خان آج بھی لوگوں کو سحر کے وقت دھول بجا کر جگاتے ہیں۔
چند لوگ سحر خان کا کام اللہ کی خوشنودی کے لئے کرتے ہیں۔ وہ اس کام کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے ہیں جبکہ بیشتر سحر خان دور دراز علاقوں سے شہروں، قصبوں یا کالونیوں میں ماہ مبارک میں سحر خان کا کام کرنے آتے ہیں۔ ان کو اس کے لیے باضابطہ اس مہینے کی عجرت دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اس ماہ مبارک کے آخری دس دنوں میں گھر گھر گھومتے ہیں اور اجرت حاصل کرتے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے عارف بشیر وانی نے ایک جوان سالہ سحر خان اشفاق احمد قریشی سے بات چیت کی تو انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ 'میں نویں جماعت کا طالب علم ہوں اور میں ضلع کپواڑہ کے کلاروس علاقے میں رہتا ہوں۔ رمضان میں ڈول بجانے کا کام میرے والد صاحب کرتے تھے۔ وہ (مستری) دصل کا کام کرتے تھے مگر کام کے دوران ان کی آنکھ کو پتھر کا ایک ٹکڑا جا لگا جس کی وجہ سے ان کی آنکھ کی روشنی چلی گئی۔ اس لئے میں اس جگہ اپنے پھوپھا کے ساتھ یہاں چند پیسے کمانے آیا ہوں'۔
انہوں نے بتایا کہ 'ہم دو بندے ہوتے ہیں ایک موبائل فون سے روشنی دیکھتا ہے اور دوسرا ڈھول بجاتا ہے۔ بارش میں بھی ہم نکلتے ہیں۔ جب زیادہ بارش ہوتی ہے نہیں لکلتے'۔
اشفاق احمد قریشی نے بتایا کہ 'ہم کو جس گاؤں میں ڈھول بجانا ہوتا ہے وہاں کی اوقاف کمیٹی یا مسجد کمیٹی وغیرہ ہم سے رابطہ کرتی ہے جس کے بعد ہم وہاں جاتے ہیں'۔
اشفاق احمد نے بتایا کہ 'میں کام نہیں کرنا چاہتا مگر کرنا پڑتا ہے کیونکہ مجبوری ہے۔ گھر بھی چلانا ہے۔ اپنی پڑھائی پوری کرنی ہے، اسلیے یہ کام بھی کرنا پڑتا ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: بڈگام میں لاک ڈاؤن کا اثر
ان کے مطابق 'ڈھول بھی بھاری ہوتا ہے اس کا وزن 10 سے 12 کلو ہوتا ہے۔ اس کو بجانا بھی اور وزن بھی اٹھانا اور پھر دو گھنٹے چلنا بھی بڑی مشکل کا کام ہے، مگر جیسا میں نے کہا کرنا پڑھتا ہے'۔
اشفاق نے بتایا کہ 'کشمیر میں اس وقت نائٹ کرفیو نافذ ہے مگر ہم رات کو نکلتے ہیں اور دو گھنٹے تک ڈھول بجاتے ہیں'۔
انہوں نے بتایا کہ 'مقامی لوگوں کا ہمارے ساتھ بہت ہی اچھا برتاؤ ہے۔ ہم ان کو بول کے رکھتے ہیں کہ آج ہم آپ کے یہاں کھانا کھائے گے اور کل آپ کے یہاں اور اسی طرح پورے مہینے ایسے ہی چلتا ہے۔ ہم خود بھی روزہ رکھتے ہیں'۔