ETV Bharat / state

بڈگام: آج بھی روایتی چکی کا چلن

جموں و کشمیر کے ضلع بڈگام میں واقع ہل مشن گاؤں میں پانی سے چلنے والی روایتی چکی آج بھی اپنے عروج پر ہے۔ اس گاؤں میں دو چکی مین روڈ کے ساتھ ہی بہنے والی ندی پر واقع ہے۔ اس بس سٹاپ کا نام بھی اسی روایتی "گرٹۂ" چکی سے منصوب ہے۔

آج بھی روایتی چکھی کا چلن
آج بھی روایتی چکھی کا چلن
author img

By

Published : Jun 24, 2020, 10:39 PM IST

Updated : Jun 24, 2020, 10:46 PM IST

کشمیر میں قدیم زمانے میں ان روایتی پانی سے چلنے والی چکیوں میں سرسوں کا تیل نکالا جاتا تھا اور دھان کو بھی اسی میں پیس کر چاول نکالے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ مرچی اور دیگر چیزوں کو بھی ان ہی پانی سے چلنے والی چکھیوں میں ہی پیساء جاتا تھا اور استعمال کیا جاتا تھا۔

آج بھی روایتی چکھی کا چلن

بدلتے وقت کے ساتھ جہاں زمانہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور سائنس نے انسانی بقاء کے لئے ایجادات عمل لائی۔ ان سے انسان کا نہ صرف پیسہ بلکہ وقت بھی کم لگتا ہے۔ مگر آج بھی لوگ روایتی چکھی سے بننے والا آٹا اور ستوء بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ لوگ اس کا استعمال اپنے لئے مفید مانتے ہیں۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے علی محمد میر نے کہا کہ 'میرے والد یہ چکی چلاتے تھے اور اب گزشتہ 20 برس سے زائد عرصہ سے اس چکی کو چلا رہا ہوں۔ یہ چکیاں گاؤں و دیہات میں کافی مقبول ہیں۔ مجھے لوگوں کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے اپنا مال خریدنا پڑتا ہے اور اسے پیس کے تیار کر کے ان کو دینا پڑتا ہے۔ میں اس سے اچھی کمائی کرتا ہوں۔ ہمیں بجلی سے چلنے والی چکیوں سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ کیونکہ میری خریداری اچھی ہے'۔

اس چکی سے ماحول کو بھی کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ گرچہ یہ پانی سے چلنے والی روایتی چکھی ہے مگر اس سے پانی کو ذرا بر بھی نقصان یا گندا نہیں ہوتا ہے۔

وہی اسداللہ احمد میر نے اس بات کا انکشاف کیا کہ 'بجلی سے چلنے والی چکیوں اور پانی سے چلنے والی روایتی چکیوں سے جو پسنے والی مکئ، چاول اور گندم کی تاثیر مختلف ہوتی ہے۔ بجلی سے چلنے والی چکی کے آٹے کی تاثیر گرم ہوتی ہے اور وہی پانی پے چلنے والی روایتی چکی کے آٹے کی تاثیر نرم ہے اور اور زیادہ صحت افزا مانا جاتا ہے'۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 'میں اپنے پورے عیاں کو اسی چکی سے پالتا ہوں۔ میں سات سال سے یہ کام کر رہا ہوں۔ میں گورنمنٹ سے گزارش کرتا ہوں کہ ہمیں پسماندہ طبقے کا سرٹیفیکیٹ دیا جائے جو ہمارا حق ہے۔ کیونکہ مطلقہ حقام سے رجو کرنے پر ہمیں منھ کی کھانی پڑھتی ہے۔

کشمیر میں لوگ اب زیادہ باغبانی کو ترجیع دیتے ہیں جس سے پیداوار میں کمی آ گئی۔ مگر اس سے ہمارے خریداری کی مانگ بڑھ گئی۔ ہمارے پاس صرف لوگ گاؤں دیہات سے ہی نہیں بلکہ شہر سے بھی خریداری کرنے کے لیے آتے ہیں۔ ہمارے پاس مکئی، چاول اور گندم کا آٹا دستیاب ہوتا ہے اور ان ہی کو ہم یہاں پیستے ہیں۔

کشمیر میں قدیم زمانے میں ان روایتی پانی سے چلنے والی چکیوں میں سرسوں کا تیل نکالا جاتا تھا اور دھان کو بھی اسی میں پیس کر چاول نکالے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ مرچی اور دیگر چیزوں کو بھی ان ہی پانی سے چلنے والی چکھیوں میں ہی پیساء جاتا تھا اور استعمال کیا جاتا تھا۔

آج بھی روایتی چکھی کا چلن

بدلتے وقت کے ساتھ جہاں زمانہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور سائنس نے انسانی بقاء کے لئے ایجادات عمل لائی۔ ان سے انسان کا نہ صرف پیسہ بلکہ وقت بھی کم لگتا ہے۔ مگر آج بھی لوگ روایتی چکھی سے بننے والا آٹا اور ستوء بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ لوگ اس کا استعمال اپنے لئے مفید مانتے ہیں۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے علی محمد میر نے کہا کہ 'میرے والد یہ چکی چلاتے تھے اور اب گزشتہ 20 برس سے زائد عرصہ سے اس چکی کو چلا رہا ہوں۔ یہ چکیاں گاؤں و دیہات میں کافی مقبول ہیں۔ مجھے لوگوں کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے اپنا مال خریدنا پڑتا ہے اور اسے پیس کے تیار کر کے ان کو دینا پڑتا ہے۔ میں اس سے اچھی کمائی کرتا ہوں۔ ہمیں بجلی سے چلنے والی چکیوں سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ کیونکہ میری خریداری اچھی ہے'۔

اس چکی سے ماحول کو بھی کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ گرچہ یہ پانی سے چلنے والی روایتی چکھی ہے مگر اس سے پانی کو ذرا بر بھی نقصان یا گندا نہیں ہوتا ہے۔

وہی اسداللہ احمد میر نے اس بات کا انکشاف کیا کہ 'بجلی سے چلنے والی چکیوں اور پانی سے چلنے والی روایتی چکیوں سے جو پسنے والی مکئ، چاول اور گندم کی تاثیر مختلف ہوتی ہے۔ بجلی سے چلنے والی چکی کے آٹے کی تاثیر گرم ہوتی ہے اور وہی پانی پے چلنے والی روایتی چکی کے آٹے کی تاثیر نرم ہے اور اور زیادہ صحت افزا مانا جاتا ہے'۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 'میں اپنے پورے عیاں کو اسی چکی سے پالتا ہوں۔ میں سات سال سے یہ کام کر رہا ہوں۔ میں گورنمنٹ سے گزارش کرتا ہوں کہ ہمیں پسماندہ طبقے کا سرٹیفیکیٹ دیا جائے جو ہمارا حق ہے۔ کیونکہ مطلقہ حقام سے رجو کرنے پر ہمیں منھ کی کھانی پڑھتی ہے۔

کشمیر میں لوگ اب زیادہ باغبانی کو ترجیع دیتے ہیں جس سے پیداوار میں کمی آ گئی۔ مگر اس سے ہمارے خریداری کی مانگ بڑھ گئی۔ ہمارے پاس صرف لوگ گاؤں دیہات سے ہی نہیں بلکہ شہر سے بھی خریداری کرنے کے لیے آتے ہیں۔ ہمارے پاس مکئی، چاول اور گندم کا آٹا دستیاب ہوتا ہے اور ان ہی کو ہم یہاں پیستے ہیں۔

Last Updated : Jun 24, 2020, 10:46 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.