ETV Bharat / state

طلباء آٹھ مضامین میں نہیں کر پائیں گے پوسٹ گریجویٹ

بہار کے ضلع گیا میں واقع اقلیتی کالج مرزا غالب کالج میں اب طلباء اردو سمیت دیگر آٹھ مضامین میں پوسٹ گریجویٹ نہیں کر پائیں گے۔

author img

By

Published : Dec 12, 2019, 1:11 PM IST

بہار کے ضلع گیا میں واقع اقلیتی کالج مرزا غالب کالج
بہار کے ضلع گیا میں واقع اقلیتی کالج مرزا غالب کالج

ریاست بہار کے ضلع گیا میں واقع مرزا غالب کالج میں انتظامیہ کی عدم توجہی اور حکومت کے امتیازی رویہ کی وجہ سے مگدھ یونیورسیٹی سے ملی منظوری ختم ہو گئی ہے۔
سنہ 2014 سے سنہ 2019 تک کل 12 مضامین میں پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم ہوتی تھی۔
مرزا غالب کالج کو صرف چار سبجکٹ میں ایم اے کرانے کی منظوری حاصل ہے۔ سنہ 2014 سے سنہ 2019 تک کل بارہ مضامین میں پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم ہوتی تھی۔

اردو سمیت کل آٹھ مضامین کی منظوری ختم ہونے کے بعد اب صرف کیمسٹری، بوٹنی، زولوجی اور سائیکلوجی میں طلباء داخلہ لے سکتے ہیں۔ حالانکہ اس ضمن میں کالج انتظامیہ کا دعوی ہے کہ حکومت سے جلد ہی منظوری مل جائے گی، مگر یونیورسٹی کی جانب سے جاری لیٹر کے بعد شہر میں مرزا غالب کالج انتظامیہ کی عدم توجہی کی چرچا ہو رہی ہے۔
اقلیتی ادارہ بتا کر آئین کی دفعہ 29 اور 30 کی دہائی دینے والے انتظامیہ کے افراد اردو کو کیوں نہیں اہم سمجھتے ہیں۔ اردو سے ان کی بے رغبتی کیوں ہے۔ سنہ 2014 میں اردو سے پوسٹ گریجویٹ کرانے کی منظوری مگدھ یونیورسیٹی سے ملنے کے بعد بھی پانچ سالوں تک خاموش کیوں بیٹھے رہے۔ حکومت سے منظوری لینے کے لیے پہل کیوں نہیں کی گئی اور اگر کی گئی تو کیا صرف خانہ پُری کی گئی۔

حقیقت یہ بھی ہے کہ سابق کمیٹیوں نے کنبہ پروری کو فروغ ضرور دیا مگر جس لسانی اقلیتی کردار کی وجہ سے وہ گورننگ باڈی کے عہدے پر فائز تھے یا ہیں اسی لسانی اقلیتی کردار کو نظر انداز کیا اور ختم ہوتے دیکھتے رہے۔ اپنے چہیتوں و رشتہ داروں کو کالج پر مسلط کرنے کے لیے گیا، پٹنہ کو ایک کر دیا مگر اردو پوسٹ گریجویٹ کو بچانے کے لیے صرف فائل تک کی پہل کی۔

واضح ہو کہ مگدھ یونیورسیٹی سے ملحق اقلیتی ادارہ مرزا غالب کالج میں اردو، ہندی، انگلش، ہسٹری، پولٹیکل سائنس اور میتھ سمیت کل آٹھ سبجکٹ کے لیے سنہ 2014 سے کل تین سیشن کے لیے منظوری ملی تھی۔ جبکہ چار مضامین کیمسٹری، بوٹنی، زولوجی اور سائیکلوجی میں لالو یادو کے دور اقتدار میں حکومتی سطح سے منظوری حاصل ہوئی تھی۔ مگدھ یونیورسٹی نے جن آٹھ سبجکٹ میں منظوری دی تھی اب اس پر روک لگ گئی ہے کیونکہ یونیورسیٹی نے منظوری دینے کے بعد حکومت سے ریگولر کرانے کی بھی ہدایت کالج کو دی تھی لیکن نہ تو سابق انتظامیہ اور نہ ہی موجودہ انتظامیہ نے اس پر توجہ دیا۔ کالج کے انتظامیہ صرف آپسی انتشار اور گورننگ باڈی کے رکن رہنے کے لیے جوڑ توڑ میں تو لگے رہے مگر اس معاملے سے بے خبر رہے۔

موجودہ سکریٹری اور کالج کے پروفیسر انچارج اپنا پلہ یہ کہتے ہوئے جھاڑ لیتے ہیں کہ ان سے پہلے کی کمیٹی کا معاملہ ہے۔ اب ان کی جانکاری میں معاملہ آیا ہے تو منظوری حاصل کرنے کے لیے کاغذی کاروائی جاری ہے اور امید ہے کے مسئلے کا حل نکل جائے گا لیکن اس دعوے میں کتنی حقیقت یہ تو بعد میں پتہ چلے گا کیونکہ ذرائع بتاتے ہیں کہ مرزا غالب کالج میں ان دنوں پھر سے آپسی رسہ کشی عروج پر ہے۔ اب اس صورتحال میں کتنا کام ہوگا یہ انتظامیہ ہی جانتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ سابق کمیٹی نے حکومت سے منظوری لینے کے لیے پہل نہیں کیا ہے۔ کمیٹی نے منظوری کے لیے محکمہ تعلیم تک گئے تھے۔

مرزا غالب کالج کے پروفیسر انچارج جلال الدین انصاری نے پوسٹ گریجویٹ کے آٹھ مضامین کی منظوری ختم ہونے کے معاملے پر کہا کہ یہ معاملہ ان کے وقت کا نہیں ہے۔ جب نئے سیشن 2019 تا2020 کے لیے داخلہ لینے سے یونیورسیٹی نے روکا اور اس کے متعلق جانکاری دی تو انہوں نے وائس چانسلر سے مل کر مسئلے کے حل کے متعلق بات کی۔ کالج کی گزارش پر وائس چانسلر نے انکوائری کمیٹی بنا کر بھیجا جو کمیٹی کالج آکر جانچ کرکے چلی گئی۔ اس پر توجہ دے کر کوشش کی جاتی تو آج حکومت سے منظوری حاصل رہتی۔ حالانکہ انہوں نے یہ ضرور کہا کہ اردو سمیت سبھی مضامین میں پی جی کی منظوری حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت کے متعلقہ محکمہ کے افسران سے لے کر وزیراعلی تک مل کر منظوری بحال کرنے کی گزارش کی جائے گی۔

موجودہ کمیٹی کے سکریٹری کہتے ہیں کہ معاملہ ان کے وقت سے قبل کا ہے جبکہ حقیقت یہ بھی ہے موجودہ کمیٹی اور سابق کمیٹی میں صرف دو تین کو چھوڑ کر باقی سبھی برسوں سے ہیں۔ موجودہ کمیٹی میں موجود اراکین میں صرف عہدے بدلے ہیں۔ موجودہ سکریٹری شبیع عارفین شمسی کو گورننگ باڈی میں شامل ہوئے دو برس ہوئے ہیں۔ فروری 2018 میں گورننگ باڈی کے رکن کے لیے ہوئے انتخاب کے بعد گورننگ باڈی کے سکریٹری قیصر شرف الدین بنے اور شمسی پہلی مرتبہ نائب صدر بنے۔ 24 مارچ 2019 کو کمیٹی نے تختہ پلٹتے ہوئے قیصر شرف الدین کو سکریٹری کو عہدے سے ہٹا کر شبیع شمسی کو سکریٹری بنایا۔ برسوں سے مرزا غالب کالج گورننگ باڈی میں سابق صدر وکیل مسعود منظر، موجودہ صدر سلیمان خان آزاد، انعام الحسن، سابق سکریٹری قیصر شرف الدین وغیرہ ہیں اور موجودہ کمیٹی میں بھی یہ سبھی موجود ہیں۔ ایسے میں یہ کہنا درست کیسے ہو سکتا ہے کہ سابق کمیٹی کی تساہلی سے معاملہ حل نہیں ہوا۔ جو کل تھے وہ آج بھی ہیں صرف عہدے پر بیٹھے شخص کی جگہ تبدیل ہوئی ہے۔

ریاست بہار کے ضلع گیا میں واقع مرزا غالب کالج میں انتظامیہ کی عدم توجہی اور حکومت کے امتیازی رویہ کی وجہ سے مگدھ یونیورسیٹی سے ملی منظوری ختم ہو گئی ہے۔
سنہ 2014 سے سنہ 2019 تک کل 12 مضامین میں پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم ہوتی تھی۔
مرزا غالب کالج کو صرف چار سبجکٹ میں ایم اے کرانے کی منظوری حاصل ہے۔ سنہ 2014 سے سنہ 2019 تک کل بارہ مضامین میں پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم ہوتی تھی۔

اردو سمیت کل آٹھ مضامین کی منظوری ختم ہونے کے بعد اب صرف کیمسٹری، بوٹنی، زولوجی اور سائیکلوجی میں طلباء داخلہ لے سکتے ہیں۔ حالانکہ اس ضمن میں کالج انتظامیہ کا دعوی ہے کہ حکومت سے جلد ہی منظوری مل جائے گی، مگر یونیورسٹی کی جانب سے جاری لیٹر کے بعد شہر میں مرزا غالب کالج انتظامیہ کی عدم توجہی کی چرچا ہو رہی ہے۔
اقلیتی ادارہ بتا کر آئین کی دفعہ 29 اور 30 کی دہائی دینے والے انتظامیہ کے افراد اردو کو کیوں نہیں اہم سمجھتے ہیں۔ اردو سے ان کی بے رغبتی کیوں ہے۔ سنہ 2014 میں اردو سے پوسٹ گریجویٹ کرانے کی منظوری مگدھ یونیورسیٹی سے ملنے کے بعد بھی پانچ سالوں تک خاموش کیوں بیٹھے رہے۔ حکومت سے منظوری لینے کے لیے پہل کیوں نہیں کی گئی اور اگر کی گئی تو کیا صرف خانہ پُری کی گئی۔

حقیقت یہ بھی ہے کہ سابق کمیٹیوں نے کنبہ پروری کو فروغ ضرور دیا مگر جس لسانی اقلیتی کردار کی وجہ سے وہ گورننگ باڈی کے عہدے پر فائز تھے یا ہیں اسی لسانی اقلیتی کردار کو نظر انداز کیا اور ختم ہوتے دیکھتے رہے۔ اپنے چہیتوں و رشتہ داروں کو کالج پر مسلط کرنے کے لیے گیا، پٹنہ کو ایک کر دیا مگر اردو پوسٹ گریجویٹ کو بچانے کے لیے صرف فائل تک کی پہل کی۔

واضح ہو کہ مگدھ یونیورسیٹی سے ملحق اقلیتی ادارہ مرزا غالب کالج میں اردو، ہندی، انگلش، ہسٹری، پولٹیکل سائنس اور میتھ سمیت کل آٹھ سبجکٹ کے لیے سنہ 2014 سے کل تین سیشن کے لیے منظوری ملی تھی۔ جبکہ چار مضامین کیمسٹری، بوٹنی، زولوجی اور سائیکلوجی میں لالو یادو کے دور اقتدار میں حکومتی سطح سے منظوری حاصل ہوئی تھی۔ مگدھ یونیورسٹی نے جن آٹھ سبجکٹ میں منظوری دی تھی اب اس پر روک لگ گئی ہے کیونکہ یونیورسیٹی نے منظوری دینے کے بعد حکومت سے ریگولر کرانے کی بھی ہدایت کالج کو دی تھی لیکن نہ تو سابق انتظامیہ اور نہ ہی موجودہ انتظامیہ نے اس پر توجہ دیا۔ کالج کے انتظامیہ صرف آپسی انتشار اور گورننگ باڈی کے رکن رہنے کے لیے جوڑ توڑ میں تو لگے رہے مگر اس معاملے سے بے خبر رہے۔

موجودہ سکریٹری اور کالج کے پروفیسر انچارج اپنا پلہ یہ کہتے ہوئے جھاڑ لیتے ہیں کہ ان سے پہلے کی کمیٹی کا معاملہ ہے۔ اب ان کی جانکاری میں معاملہ آیا ہے تو منظوری حاصل کرنے کے لیے کاغذی کاروائی جاری ہے اور امید ہے کے مسئلے کا حل نکل جائے گا لیکن اس دعوے میں کتنی حقیقت یہ تو بعد میں پتہ چلے گا کیونکہ ذرائع بتاتے ہیں کہ مرزا غالب کالج میں ان دنوں پھر سے آپسی رسہ کشی عروج پر ہے۔ اب اس صورتحال میں کتنا کام ہوگا یہ انتظامیہ ہی جانتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ سابق کمیٹی نے حکومت سے منظوری لینے کے لیے پہل نہیں کیا ہے۔ کمیٹی نے منظوری کے لیے محکمہ تعلیم تک گئے تھے۔

مرزا غالب کالج کے پروفیسر انچارج جلال الدین انصاری نے پوسٹ گریجویٹ کے آٹھ مضامین کی منظوری ختم ہونے کے معاملے پر کہا کہ یہ معاملہ ان کے وقت کا نہیں ہے۔ جب نئے سیشن 2019 تا2020 کے لیے داخلہ لینے سے یونیورسیٹی نے روکا اور اس کے متعلق جانکاری دی تو انہوں نے وائس چانسلر سے مل کر مسئلے کے حل کے متعلق بات کی۔ کالج کی گزارش پر وائس چانسلر نے انکوائری کمیٹی بنا کر بھیجا جو کمیٹی کالج آکر جانچ کرکے چلی گئی۔ اس پر توجہ دے کر کوشش کی جاتی تو آج حکومت سے منظوری حاصل رہتی۔ حالانکہ انہوں نے یہ ضرور کہا کہ اردو سمیت سبھی مضامین میں پی جی کی منظوری حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت کے متعلقہ محکمہ کے افسران سے لے کر وزیراعلی تک مل کر منظوری بحال کرنے کی گزارش کی جائے گی۔

موجودہ کمیٹی کے سکریٹری کہتے ہیں کہ معاملہ ان کے وقت سے قبل کا ہے جبکہ حقیقت یہ بھی ہے موجودہ کمیٹی اور سابق کمیٹی میں صرف دو تین کو چھوڑ کر باقی سبھی برسوں سے ہیں۔ موجودہ کمیٹی میں موجود اراکین میں صرف عہدے بدلے ہیں۔ موجودہ سکریٹری شبیع عارفین شمسی کو گورننگ باڈی میں شامل ہوئے دو برس ہوئے ہیں۔ فروری 2018 میں گورننگ باڈی کے رکن کے لیے ہوئے انتخاب کے بعد گورننگ باڈی کے سکریٹری قیصر شرف الدین بنے اور شمسی پہلی مرتبہ نائب صدر بنے۔ 24 مارچ 2019 کو کمیٹی نے تختہ پلٹتے ہوئے قیصر شرف الدین کو سکریٹری کو عہدے سے ہٹا کر شبیع شمسی کو سکریٹری بنایا۔ برسوں سے مرزا غالب کالج گورننگ باڈی میں سابق صدر وکیل مسعود منظر، موجودہ صدر سلیمان خان آزاد، انعام الحسن، سابق سکریٹری قیصر شرف الدین وغیرہ ہیں اور موجودہ کمیٹی میں بھی یہ سبھی موجود ہیں۔ ایسے میں یہ کہنا درست کیسے ہو سکتا ہے کہ سابق کمیٹی کی تساہلی سے معاملہ حل نہیں ہوا۔ جو کل تھے وہ آج بھی ہیں صرف عہدے پر بیٹھے شخص کی جگہ تبدیل ہوئی ہے۔

Intro:ریاست بہار کے ضلع گیامیں واقع اقلیتی کالج مرزاغالب کالج میں اب طلباء اردوسمیت دیگر آٹھ سبجیکٹ میں پوسٹ گریجویٹ نہیں کرپائینگے ۔ کالج انتظامیہ کی عدم توجہی اور حکومت کے امتیازی رویہ کی وجہ سے مگدھ یونیورسیٹی سے ملی منظوری ختم ہوگئی ہے ۔ 2014 سے 2019 تک کل بارہ سبجیکٹ میں پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم ہوتی تھی Body:مگدھ کمشنری کے واحداقلیتی کالج مرزاغالب کالج سے اب طلباء اردو سمیت دیگر آٹھ سبجکٹ میں پوسٹ گریجویٹ کا کورس نہیں کرپائیں گے ۔کیونکہ کالج انتظامیہ کی عدم توجہی اور حکومت کے امتیازی رویہ کی وجہ سے مگدھ یونیورسیٹی سے ملی منظوری ختم ہوگئی ہے ۔مرزاغالب کالج کو صرف چار سبجکٹ میں ایم اے کرانے کی منظوری حاصل ہے ۔2014 سے 2019 تک کل بارہ سبجکٹ میں پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم ہوتی تھی ۔اردو سمیت کل آٹھ سبجکٹ کی منظوری ختم ہونے کے بعد اب صرف کمسٹری ، بوٹنی ، زولوجی اور سائیکلوجی میں طلباء داخلہ لے سکتے ہیں ۔حالانکہ اس ضمن میں کالج منتظمہ کادعوی ہے کہ حکومت سے جلد ہی منظوری مل جائیگی ۔مگر یونیورسیٹی کی جانب سے جاری لیٹر کے بعد شہر میں مرزاغالب کالج منتظمہ کی عدم توجہی کی چرچا ہورہی ہے کہ اقلیتی ادارہ بتاکر آئین کی دفعہ 29 اور 30 کی دہائی دینے والے منتظمہ کے افراد اردو کو کیوں نہیں اہم سمجھتے ہیں ؟ اردو سے انکی بے رغبتی کیوں ہے ؟ 2014 میں اردو سے پوسٹ گریجویٹ کرانے کی منظوری مگدھ یونیورسیٹی سے ملنے کے بعد بھی پانچ سالوں تک خاموش کیوں بیٹھے رہے ؟ حکومت سے منظوری لینے کے لئے پہل کیوں نہیں کی گئی اور اگر کی گئی تو کیا صرف خانہ پُری کی گئی ؟ حقیقت یہ بھی ہے کہ سابق کمیٹیوں نے کنبہ پروری کو فروغ ضرور دیا مگر جس لسانی اقلیتی کردار کی وجہ سے وہ گورننگ باڈی کے عہدے پر فائز تھے یا ہیں اسی لسانی اقلیتی کردار کو نظرانداز کیا اور ختم ہوتے دیکھتے رہے ۔اپنے چہیتوں و رشتہ داروں کو کالج پر مسلط کرنے کے لئے گیا ۔پٹنہ ایک کردیا مگر اردو پوسٹ گریجویٹ کو بچانے کے لئے صرف فائل تک کی پہل کی۔ واضح ہوکہ مگدھ یونیورسیٹی سے ملحق اقلیتی ادارہ مرزاغالب کالج میں اردو ، ہندی ، انگلش ، ہسٹری ، پولٹیکل سائنس اور میتھ سمیت کل آٹھ سبجکٹ کے لئے 2014 سے کل تین سیشن کے لئے منظوری ملی تھی ۔جبکہ چار سبجکٹ کمسٹری ، بوٹنی ، زولوجی اور سائیکلوجی میں لا لو یادو کے دوراقتدار میں حکومتی سطح سے منظوری حاصل ہوئی تھی ۔ مگدھ یونیورسٹی نے جن آٹھ سبجکٹ میں منظوری دی تھی اب اس پر روک لگ گئی ہے کیونکہ یونیورسیٹی نے منظوری دینے کے بعد حکومت سے ریگولر کرانے کی بھی ہدایت کالج کو دی تھی لیکن نہ تو سابق منتظمہ اور نہ ہی موجودہ منتظمہ نے اس پرتوجہ دیا ۔ کالج کے منتظمہ صرف آپسی انتشار اور گورننگ باڈی کے رکن رہنے کے لئے جوڑ توڑ میں تو لگے رہے مگر اس معاملے سے بے خبر رہے ۔ موجودہ سکریٹری اور کالج کے پروفیسر انچارج اپنا پلہ یہ کہتے ہوئے چھاڑ لیتے ہیں کہ ان سے پہلے کی کمیٹی کا معاملہ ہے ۔اب انکی جانکاری میں معاملہ آیا ہے تو منظوری حاصل کرنے کے لئے کاغذی کاروائی جاری ہے اور امید ہے کے مسئلے کاحل نکل جائیگا ۔لیکن اس دعوے میں کتنی حقیقت یہ تو بعد میں پتہ چلے گا کیونکہ
ذرائع بتاتے ہیں کہ مرزا غالب کالج میں ان دنوں پھر سے آپسی رسہ کشی عروج پر ہے۔اب اس صورتحال میں کتنا کام ہوگا یہ منتظمہ ہی جانتاہے ۔حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ سابق کمیٹی نے حکومت سے منظوری لینے کے لئے پہل نہیں کیاہے ۔کمیٹی نے منظوری کے لئے محکمہ ایجوکیشن تک گئے
Conclusion:کیاکہتے ہیں پروفیسر انچارج

مرزاغالب کالج کے پروفیسر انچارج جلال الدین انصاری نے پوسٹ گریجویٹ کے آٹھ سبجکٹ کی منظوری ختم ہونے کے معاملے پر کہاکہ یہ معاملہ انکے وقت کانہیں ہے ۔جب نئے سیشن 2019 تا2020 کے لئے داخلہ لینے سے یونیورسیٹی نے روکا اور اسکے متعلق جانکاری دی تو انہوں نے وائس چانسلر سے ملکر مسئلے کے حل کے متعلق بات کی ، کالج کی گزارش پر وائس چانسلر نے انکوائری کمیٹی بناکر بھیجا جو کمیٹی کالج آکر جانچ کرکے چلی گئی ہے ۔ اس پرتوجہ دیکر کوشش کی جاتی تو آج حکومت سے منظوری حاصل رہتی حالانکہ انہوں نے یہ ضرور کہا کہ اردو سمیت سبھی سبجکٹ میں پی جی کی منظوری حاصل کرنے کے لئے ہرممکن کوشش کی جارہی ہے ۔ حکومت کے متعلقہ محکمہ کے افسران سے لیکر وزیراعلی تک ملکر منظوری بحال کرنے کی گزارش کی جائیگی ۔

ایک دوسرے پر ٹال مٹول سے قوم کانقصان

موجودہ کمیٹی کے سکریٹری کہتے ہیں کہ معاملہ انکے وقت سے قبل کا ہے جبکہ حقیقت یہ بھی ہے موجودہ کمیٹی اور سابق کمیٹی میں صرف دو تین کوچھوڑ کر باقی سبھی برسوں سے ہیں ، موجودہ کمیٹی میں موجود اراکین میں صرف عہدے بدلے ہیں ۔ موجودہ سکریٹری شبیع عارفین شمسی کو گورننگ باڈی میں شامل ہوئے دوسال ہوئے ہیں ۔فروری 2018 میں گورننگ باڈی کے رکن کے لئے ہوئے انتخاب کے بعد گورننگ باڈی کے سکریٹری قیصرشرف الدین بنے اور شمسی پہلی مرتبہ نائب صدر بنے ۔24 مارچ 2019 کو کمیٹی نے تختہ پلٹتے ہوئے قیصر شرف الدین کوسکریٹری کوعہدے سے ہٹا کر شبیع شمسی کو سکریٹری بنایا ۔برسوں سے مرزاغالب کالج گورننگ باڈی میں سابق صدر ایڈوکیٹ مسعود منظر ، موجودہ صدر سلیمان خان آزاد ، انعام الحسن ، سابق سکریٹری قیصر شرف الدین وغیرہ ہیں اور موجودہ کمیٹی میں بھی یہ سبھی موجود ہیں ، ایسے میں یہ کہنا درست کیسے ہوسکتا ہے کہ سابق کمیٹی کی تساہلی سے معاملہ حل نہیں ہوا ۔ جو کل تھے وہ آج بھی ہیں صرف عہدے پر بیٹھے شخص کی جگہ تبدیل ہوئی ہے

بائٹ ۔پروفیسر انچارج جلال الدین انصاری
رپورٹ سرتاج احمد ضلع گیا بہار
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.