ETV Bharat / state

No Muslim Minister from Magadh Commissionary عظیم اتحاد حکومت میں مگدھ کمشنریٹ سے کوئی مسلم وزیر نہیں؟

author img

By

Published : Aug 16, 2022, 11:15 AM IST

عظیم اتحاد کی حکومت میں مگدھ کمشنری کی نمائندگی کے لیے دو دلت ایک یادو برادری کو وزیر بنائے جانے کا امکان ہے، تاہم یہاں سے کوئی مسلم چہرہ وزیر نہیں ہوگا۔ No Muslim Minister from Magadh Commissionary

there-is-no-muslim-minister-from-magadh-commissionary
مگدھ کمشنریٹ سے کوئی مسلم وزیر نہیں

گیا: بہار کے اقتدار کی سیاست میں مگدھ کمشنری کا بڑا اثر ہوتا ہے ۔حکومت سازی کے لیے اسمبلی کی 26 سیٹیں اسی علاقے سے آتی ہیں۔ مسلمان بھی مگدھ میں قریب پچیس فیصد ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار نوجوان شمشیر خان کا کہنا ہے کہ یہ الگ بات ہے کہ یہاں کے مسلمانوں کی سیمانچل متھلانچل جیسی سیاسی حیثیت نہیں ہے۔ عظیم اتحاد کی حکومت میں ہر علاقے ہر ذات کی نمائندگی کے لیے وزیر بنانے کے لیے ہلچل مچی ہوئی ہے۔ سیمانچل اور متھلانچل کے مسلم ایم ایل اے کا نام بھی سرخیوں میں ہے کہ کسے وزیر بنایا جاسکتا ہے۔ تاہم مگدھ کمشنری کے کسی مسلم چہرے کا نام اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔ No Muslim Minister from Magadh Commissionary

ویڈیو

گیا کے ایک یادو اور دو دلت کو وزیر بنائے جانے کی خبر سرخیوں میں ہے، بہار کی مسلم سیاست کے نباض سراج انور کہتے ہیں کہ ملک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے،جشن آزادی میں ڈوبا ہے تو مگدھ کی ایک بڑی مسلم آبادی اقتدار میں حصہ داری سے محروم رہنے کا درد سہلا رہا ہے۔ اس لیے بھی کہ بہار میں اقتدار بدل گئی ہے اور نئی کابینہ آج ہی تشکیل ہو نے جا رہی ہے۔ سراج انور کہتے ہیں کہ اقلیت اور دیگر محکمہ کے وزیر رہے شکیل احمد خان کے انتقال کے بعد جیسے مگدھ کا مسلمان اچھوت بن گیا ہے، یہاں کے مسلمانوں کو نہ ٹکٹ تقسیم میں توجہ دی جاتی ہے اور نہ وزارت میں۔ سیمانچل اور متھلانچل کے مسلمانوں پر سیاسی جماعتوں کی توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ اس سے مگدھ کے مسلمانوں میں نا امید جنم لے رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی محرومیت کو ختم کرنے کے لیے اس بار مگدھ سے ایک مسلم وزیر ہونا ہی چاہیے تھا، تاکہ یہاں کے مسلمان بھی خود کو اقتدار کا حصہ دار محسوس کرے۔ سیکولر جماعتوں کے لیے یہ بھی ایک شرم کی بات ہے کہ 75 برسوں میں صرف 10 مسلمان اب تک ایم ایل اے اس علاقے سے ہوئے ہیں، وزیر تو نہ کے برابر ہیں۔ گیا کے سماجی رکن فیاض خان کا کہنا ہے کہ مگدھ میں تین مسلم چہرے ہیں، آرجے ڈی سے نہال الدین، آرجے ڈی سے ہی دوسرے کامران احمد ہیں جبکہ جے ڈی یو سے ایم ایل سی آفاق احمد ہیں۔ مہاگٹھ بندھن جسے چاہے وزیر بنائے یہاں کے مسلمانوں کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ کمشنری میں مسلمانوں کی نمائندگی کو حاشیے پر نہیں ڈالا جائے اور اس سے بہتر کیا ہوگا کہ اس علاقے سے کسی مسلم رہنماء کو وزیر بنایا جائے، حالانکہ یہ ابھی ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ آج ہی حلف برداری تقریب ہے اور قریب سبھی چیزیں فائنل ہوچکی ہیں۔'


واضح رہے کہ مگدھ کمشنری کی چھبیس سیٹوں میں اورنگ آباد کے رفیع گنج حلقہ سے نہال الدین ایم ایل اے ہیں جبکہ نوادہ کے گوبند پور کامران احمد ہیں، 2020 کے اسمبلی میں صرف دو سیٹیں ملی تھیں اور دونوں سیٹوں پر مسلم امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی۔

مزید پڑھیں:

گیا: بہار کے اقتدار کی سیاست میں مگدھ کمشنری کا بڑا اثر ہوتا ہے ۔حکومت سازی کے لیے اسمبلی کی 26 سیٹیں اسی علاقے سے آتی ہیں۔ مسلمان بھی مگدھ میں قریب پچیس فیصد ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار نوجوان شمشیر خان کا کہنا ہے کہ یہ الگ بات ہے کہ یہاں کے مسلمانوں کی سیمانچل متھلانچل جیسی سیاسی حیثیت نہیں ہے۔ عظیم اتحاد کی حکومت میں ہر علاقے ہر ذات کی نمائندگی کے لیے وزیر بنانے کے لیے ہلچل مچی ہوئی ہے۔ سیمانچل اور متھلانچل کے مسلم ایم ایل اے کا نام بھی سرخیوں میں ہے کہ کسے وزیر بنایا جاسکتا ہے۔ تاہم مگدھ کمشنری کے کسی مسلم چہرے کا نام اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔ No Muslim Minister from Magadh Commissionary

ویڈیو

گیا کے ایک یادو اور دو دلت کو وزیر بنائے جانے کی خبر سرخیوں میں ہے، بہار کی مسلم سیاست کے نباض سراج انور کہتے ہیں کہ ملک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے،جشن آزادی میں ڈوبا ہے تو مگدھ کی ایک بڑی مسلم آبادی اقتدار میں حصہ داری سے محروم رہنے کا درد سہلا رہا ہے۔ اس لیے بھی کہ بہار میں اقتدار بدل گئی ہے اور نئی کابینہ آج ہی تشکیل ہو نے جا رہی ہے۔ سراج انور کہتے ہیں کہ اقلیت اور دیگر محکمہ کے وزیر رہے شکیل احمد خان کے انتقال کے بعد جیسے مگدھ کا مسلمان اچھوت بن گیا ہے، یہاں کے مسلمانوں کو نہ ٹکٹ تقسیم میں توجہ دی جاتی ہے اور نہ وزارت میں۔ سیمانچل اور متھلانچل کے مسلمانوں پر سیاسی جماعتوں کی توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ اس سے مگدھ کے مسلمانوں میں نا امید جنم لے رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی محرومیت کو ختم کرنے کے لیے اس بار مگدھ سے ایک مسلم وزیر ہونا ہی چاہیے تھا، تاکہ یہاں کے مسلمان بھی خود کو اقتدار کا حصہ دار محسوس کرے۔ سیکولر جماعتوں کے لیے یہ بھی ایک شرم کی بات ہے کہ 75 برسوں میں صرف 10 مسلمان اب تک ایم ایل اے اس علاقے سے ہوئے ہیں، وزیر تو نہ کے برابر ہیں۔ گیا کے سماجی رکن فیاض خان کا کہنا ہے کہ مگدھ میں تین مسلم چہرے ہیں، آرجے ڈی سے نہال الدین، آرجے ڈی سے ہی دوسرے کامران احمد ہیں جبکہ جے ڈی یو سے ایم ایل سی آفاق احمد ہیں۔ مہاگٹھ بندھن جسے چاہے وزیر بنائے یہاں کے مسلمانوں کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ کمشنری میں مسلمانوں کی نمائندگی کو حاشیے پر نہیں ڈالا جائے اور اس سے بہتر کیا ہوگا کہ اس علاقے سے کسی مسلم رہنماء کو وزیر بنایا جائے، حالانکہ یہ ابھی ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ آج ہی حلف برداری تقریب ہے اور قریب سبھی چیزیں فائنل ہوچکی ہیں۔'


واضح رہے کہ مگدھ کمشنری کی چھبیس سیٹوں میں اورنگ آباد کے رفیع گنج حلقہ سے نہال الدین ایم ایل اے ہیں جبکہ نوادہ کے گوبند پور کامران احمد ہیں، 2020 کے اسمبلی میں صرف دو سیٹیں ملی تھیں اور دونوں سیٹوں پر مسلم امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی۔

مزید پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.