گیا سے پٹنہ تک قومی شاہراہ 83 کی تعمیر کے لئے کسانوں سے زمین لینے کے بدلے میں ملنے والے معاوضے کولیکر معاملہ طول پکڑتا جارہا ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ انہیں وہ قیمت ادا نہیں کی جارہی ہے جس کے وہ مستحق ہیں، معاملہ ہائی کورٹ میں ہے، باوجود کہ قومی شاہرہ اتھارٹی اور ضلع انتظامیہ کے ذریعے عدالت کو گمراہ کیا گیا اور زبردستی ان کے مکان و دکانوں کوتوڑا گیا ہے اور عوام سے کہا گیا کہ یہ کاروائی عدالت کی ہدایت پر کی گئی ہے۔
ہفتہ کو شہر کے ایک ہوٹل میں این ایچ 83 اراضی تحویل سنگھرش سمیتی کے نمائندوں نے پریس کانفرنس کی۔ جس میں سید اقبال حسین نائب صدر، جاویدخان سکریٹری وغیرہ کے علاوہ سمیتی کے کئی اور اراکین موجود تھے۔
اقبال حسین نے کہا کہ این ایچ 83 کی زمین 2010 میں تحویل میں لی گئی لیکن اس میں قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔ بغیر سروے کرائے کھتیان کو مانتےہوئے گزٹ کیا گیا جو قانون کے مخالف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کے ذریعے سنجے سہائے کے کیس میں ضلع انتظامیہ کو صاف ہدایت ہے کہ آج کے حالات کودیکھتے ہوئے فیصلے لئے جائیں۔
انتظامیہ کے ذریعے چھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی کی تشکیل کرکے یہ فیصلہ کیا گیا کہ سڑک کے کنارے کی زمین تجارتی ہے اور ان کا معاوضہ کمرشیل دیاگیا صحیح ہے لیکن باقی معاوضہ کھیتی کی زمین کا کیوں ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج کسانوں کے ساتھ بات کرنے والا کوئی نہیں ہے، حکومت کسی کی زمین کو بنا معاوضہ دیے لے نہیں سکتی ہے لیکن یہاں ایسا ہورہا ہے۔ حکومت اس مسئلے کو جلد نمٹا کے این ایچ کی تعمیر کے کام کو آگے بڑھوائے۔
ڈاکٹر جاوید خان نے کہا کہ انتظامیہ اور این ایچ ملکر غریب و کسانوں کی زمین کو قبضہ کررہی ہے۔ انہوں نے اس سڑک پر بڑے پیمانہ پر گھوٹالے کابھی الزام این ایچ 83 پر لگایا اور کہا کہ انہیں انصاف جب تک نہیں ملتا ہے وہ احتجاج کرتے رہیں گے۔ ہماری ذاتی زمین سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو کہ غلط ہے۔ ہم آئین کے مطابق عدالت میں اس کی لڑائی لڑرہے ہیں۔