پٹنہ: مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ ریاست بہار کا ایک ایسا قدیم تاریخی، ملی، دینی و عصری ادارہ ہے جس نے مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے لاکھوں نونہالوں کو اس قابل بنایا کہ آج وہ ریاست و ملک کے مختلف گوشوں میں اہم عہدوں پر فائز ہوکر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں. اس ادارہ کو جسٹس نور الہدیٰ نے اپنے والد گرامی مولانا شمس الہدیٰ کے نام پر 12 نومبر 1921 کو شہر کے اشوک راج پتھ پر قائم کیا تھا، بہار کا کوئی ایسا ضلع نہیں جہاں مدرسہ شمس الہدیٰ کے فارغین موجود نہ ہوں۔ Madrasa Islamia Shamsul Huda
شہر عظیم آباد کے گنجان علاقے میں آباد مدرسہ شمس الہدیٰ کے قیام کے ساتھ ہی جونیئر سیکشن کا قیام عمل میں آیا تھا تاکہ قرب و جوار کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو دور دراز کا سفر طے نہ کرنا پڑے اور یہیں رہ کر علم کے زیور سے آراستہ ہو سکیں، جونیئر سیکشن میں تحتانیہ سے وسطانیہ یعنی درجہ ایک سے درجہ آٹھ تک تعلیم ہوتی ہے، سو سالہ عرصہ میں لاکھوں بچے یہاں سے تعلیم حاصل کرکے اعلیٰ مقام پر فائز ہوچکے ہیں۔
مگر مدرسہ کی ریڑھ سمجھے جانے والے جونیئر سیکشن میں رفتہ رفتہ اساتذہ کی سبکدوشی کے بعد لمبے عرصے سے کسی استاذ کی تقرری نہیں ہوئی، نتیجے کے طور پر ایک استاذ جو تعلیمی امور پر مامور تھے وہ بھی گزشتہ 31 جنوری 2022 کو سبکدوش ہو گئے.
ای ٹی وی بھارت اردو اس تعلق سے مسلسل رپورٹیں شائع کر ایوان میں بیٹھے سیاست دانوں اور اہل علم کی توجہ اس جانب مبذول کراتا رہا، مذکورہ مسئلہ پر بہار اسمبلی میں جب نمائندوں نے آواز اٹھائی تو محکمۂ تعلیم نے سبکدوش ہوئے محمد اسلم حسین کی تقرری ایک سال کے کنٹریکٹ پر کی تاکہ تعلیمی نقصان نہ ہو، ساتھ ہی محکمہ نے اساتذہ کی کمی محسوس کرتے ہوئے جونیئر سیکشن میں ہی مارچ 2022 میں 6 اساتذہ کو تین مہینے کے ڈپوٹیشن پر بحال کیا، ان اساتذہ کے دو ماہ مکمل ہو چکے ہیں، مزید ایک ماہ بچا ہے. مگر اہم سوال یہ ہے کہ جب ڈپوٹیشن پر بحال اساتذہ کی مدت پوری ہو جائے گی تو پھر یہاں کا تعلیمی نظام کس طرح چلے گا۔
اس معاملے پر ماہر تعلیم پروفیسر صفدر امام قادری حکومت کی نیت پر سوال کھڑا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت اس ضمن میں اگر چاہے تو مستقل بحالی کا اشتہار نکال کر اساتذہ کی بحالی کر سکتی ہے، مگر وہ ایسا نہیں کرنا چاہتی، اس کا سب سے زیادہ نقصان یہاں پڑھنے والے طلبا کا ہو رہا ہے۔ وہیں ریاستی ترجمان اعجاز احمد نے کہا کہ نتیش حکومت شروع سے اردو مخالف رہی ہے، آج بہار میں جتنے بھی اقلیتی ادارے ہیں سبھی کا عہدہ خالی ہے، حکومت اگر ان خالی عہدوں پر بحالی نہیں کرے گی تو ایک مہم شروع کی جائے گی۔
نوجوان سماجی کارکن سعد احمد نے کہا کہ مدرسہ شمس الہدیٰ کی زبوں حالی کو لیکر ہم نوجوانوں نے سوشل میڈیا سے لیکر سڑکوں تک آواز اٹھائی ہے، یہ ادارہ صرف بہار ہی نہیں بلکہ ملک کا قدیم ترین ادارہ ہے جہاں سے نامور علماء کرام نے تعلیم حاصل کی ہے۔ واضح رہے کہ مدرسہ شمس الہدیٰ میں برسوں سے اساتذہ کے زیادہ تر عہدے خالی پڑے تھے، یہاں تک کہ اساتذہ نہیں ہونے سے جونیئر سیکشن بند ہونے کے دہانے پر تھا، مگر دپوٹیشن مکمل کرنے والے اساتذہ جب یہاں سے رخصت پذیر ہوں گے تو پھر یہاں اساتذہ کی کمی یقینی طور پر مسئلہ پیدا کرے گی اور یہ حکومت کے لیے سوال بھی کھڑا کرے گا کہ آخر شمس الہدیٰ کو مستقل اساتذہ کب ملیں گے؟