ETV Bharat / state

تنزلی کی غلامی میں جکڑا آزاد ملک کا 'تِرواہ' علاقہ - 60 thousand muslim vote in tirwaha

مشرقی چمپارن ضلع میں بنجاریہ بلاک کا ترواہ علاقہ اقلیتوں کی کثیر آبادی والا علاقہ ہے۔ تقریباً 20 گاؤں پر مشتمل اس علاقے سے کئی پہاڑی ندیاں گزرتی ہیں، لیکن اس علاقے کی اہم ندی سکرہنا ہے جس کے اطراف میں تقریباً سوا لاکھ کی آبادی بسی ہوئی ہے۔

تنزلی کی غلامی میں جکڑا  مشرقی چمپارن کا علاقہ
تنزلی کی غلامی میں جکڑا مشرقی چمپارن کا علاقہ
author img

By

Published : Sep 8, 2020, 3:49 PM IST

اس مسلم اکثریتی علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ سیلاب ہے، ہر سال اس علاقے کے لوگ سیلاب کی قہرسامانیوں سے دوچار ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پورا علاقہ مہینوں تک پانی میں ڈوبا رہتا ہے، آمد و رفت کے لیے پل تو موجود ہے لیکن پل تک پہنچنا یہاں کی آبادی کے لیے ٹیڑھی کھیر ہے کیوں کہ سڑکیں خستہ حال ہیں۔ کاشت کاری پر منحصر یہاں کے لوگ ہر سال اپنی فصلیں نقصان ہوتا ہوا دیکھتے ہیں اور صبر کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

تنزلی کی غلامی میں جکڑا مشرقی چمپارن کا علاقہ، ویڈیو

تنگ و تاریک گلیاں ترواہ کی پسماندگی کی منہ بولتی تصویر بیان کرتی ہیں۔ غربت و افلاس سے جوجھتی اس آبادی میں کچے پکے مکانوں کا لامتناہی سلسلہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے تو زندگی گزارنے کے لیے بنی بے ترتیب جھگی جھونپڑیاں بھی یہاں مل جاتی ہیں۔ جن میں رہنے والوں کی بدقسمتی پر سرکاریں کوئی ترس نہیں کھاتیں۔ دور جدید میں بھی یہ علاقہ ترقی سے کوسوں دور ہے۔

تعلیم و صحت کے شعبے میں یہ خطہ ابھی تک دہائیوں پیچھے ہے۔ ترقی کی روشنی کی لو یہاں پہنچتے پہنچتے کافی مدھم ہوجاتی ہے۔ حالت یہ ہے کہ اس علاقے میں میٹرک پاس کرنے والے طلبا انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔صحت کےنام پر ایک پی ایچ سی ہے، جہاں پہنچنے کے لیے خراب سڑکیں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، حکومت کی فلاحی اسکیموں کی میعاد کب ختم ہوجاتی علاقے کے لوگوں کو اس کا پتہ ہی نہیں چلتا۔

ڈاکٹر ذاکر حسین ہائی اسکول کے منتظم عقیل احمد ترواہ کے رہنے والے ہیں، انہوں نے بتایا کہ اس علاقے کے پسماندہ طبقے کی تعلیمی حالت بہت ہی خراب ہے، جب کہ ترقی کا سب سے بڑا سرمایہ تعیلم ہوتا ہے۔

انہوں نے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ سِسونیا گاؤں میں دس ہزار کی آبادی پسماندہ طبقے کی ہے، لیکن اس طبقے کے صرف 10 تا 12 طلبا ہی میٹرک کے امتحان میں شرکت کر پاتے ہیں۔ جس علاقے کے بچے تعلیم سے کوسوں دور ہوں گے وہاں ترقی کی بات بے معنی ہی ہوگی۔

پٹنہ سے شائع ہونے والے اردو اخبار کے سینیئر صحافی عُزیر انجم نے بتایا کہ یہاں کے رائے دہندگان کے ووٹوں سے حکومت بنتی اور بگڑتی ہے لیکن ترواہ کے علاقے کو اس کا فائدہ ابھی تک نہیں ہوا۔ ووٹ مانگنے کے لیے ہر سیاسی جماعت کا رہنما آتا ہے۔ سبز باغ دکھاتا ہے، لوگوں سے قربت کے دعوے کرتا ہے، ان کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کراتا ہے اور انتخابات کے بعد وہ کبھی اس علاقے کا رخ بھی نہیں کرتا۔ یہاں کے ووٹر اب ان سے عاجز آ چکے ہیں۔ کیوں کے سارے وعدے سراب ثابت ہوتے ہیں۔

سِسونیا گاؤں کے رہنے والے ظہیر دیوان نے بتایا کہ راشن تو ملتا ہے۔ لیکن بجلی کا کھمبے ابھی تک یہاں نہیں نصب کیے گئے، اپنا تار خرید کر بجلی گھر تک لائے ہیں۔ جھونپڑی کے گھر میں رہنے والی نسیمہ خاتون نے بتایا کہ انکو اور ان کے شوہر کو پینشن نہیں ملتی، آواس یوجنا کا فائدہ اب تک نہیں ملا یہی وجہ ہے کہ یہ چھوٹی سی جھونپڑی ہی ان کا آشیانہ ہے۔

اجگری گاؤں کے رہنے والے لال بابو خان نے بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے ہر برس ان کی کاشت تباہ ہوجاتی ہے۔ کھیتی باڑی کرکے گزارا کرتے ہیں اور فصلیں ہی جب تباہ ہوجائیں تو ان کی زندگی کس قدر محال ہوگی اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ لیکن ان کی خبرگیری کو کوئی نہیں آتا، انتخابات کے وقت رہنما ووٹ مانگنے آتے ہیں۔ اور انتخابات کے بعد ہم ان کی تلاش میں رہتے ہیں۔

وہیں محمد قمرالزماں نے بتایا کہ پورا ترواہ سیلاب کی مار گزشتہ کئی دہائیوں سے جھیل رہا ہے۔ کوئی فصل نہیں ہو پاتی۔ سیلاب کا مسئلہ حل ہوجائے تو ہم بھی راحت کی سانس لیں۔ کھیتی باڑی ہوگی تو دو وقت کی روٹی کا انتظام بھی کرلیں گے۔

اس علاقے کے سماجی کارکن توصیف الرحمان نے بتایا کہ ترواہ کو ترقی کے پرفریب نعروں کے ذریعہ اب تک سیاسی رہنما دھوکہ دیتے آ رہے ہیں۔ سڑکوں کی حالت اس قدر ابتر ہے کہ ضلع کے صدر مقام تک جانے کے لیے بھی سوچنا پڑتا ہے۔ نہ ڈھنگ کا اسکول کالج ہے نہ ہسپتال۔ بیماروں کو بروقت موتیہاری نہ پہنچایا جائے تو اس کی موت یقینی ہے کیوں کہ سڑک کی خستہ حالت کی وجہ سے مریض کو ہسپتال پہنچاتے وقت وہ راستے میں ہی وہ دم توڑ دیتے ہیں۔ کئی خواتین بچے کو جنم دینے سے قبل ہی فوت ہوگئی ہیں۔

ترواہ علاقے کے ووٹ بینک پر تمام سیاسی پارٹیوں کی نظر رہتی ہے، سوا لاکھ پر مشتمل آبادی میں 60 ہزار مسلم ووٹ ہے، ترواہ کے سسوانیا، محمد پور، جٹوا اور سندپور میں 80 تا 90 فیصد پسماندہ طبقے کے لوگ آباد ہیں، جب کہ گوبری، کھیری اور اجگروا گاؤں میں 40 تا 50 فیصد مسلم آبادی ہے، اس کے علاوہ ترواہ کے دیگر گاؤں میں 20 تا 30 فیصد مسلم رہتے ہیں۔جن کے ووٹ کے لیے سیاسی رہنما ایک دوسرے پر حاوی رہتے ہیں۔ وعدوں کی برسات ہوتی ہے، ترقی کے سنہرے خواب دکھائے جاتے ہیں، لیکن یہاں کے لوگ اب اپنے مسائل کے ساتھ زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ترواہ کے لوگوں کے لیے انتخابات کے بعد پھر وہی سیلاب، خستہ حال سڑکیں، سرکاری امداد کا انتظار، علاج کو ترستے مریض اور تعلیم سے محروم طلبا رہ جاتے ہیں۔

یہ خطہ ترقی کے مرکزی دھارے سے کب جڑے گا اور بنیادی سہولیات کا معقول انتظام کب تک ہوگا اس خطے کے لوگ اس کا کب تک انتظار کریں گے یہ چند ایسے سوالات ہیں جن کا جواب کب ملے گا کسی کو معلوم نہیں۔

اس مسلم اکثریتی علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ سیلاب ہے، ہر سال اس علاقے کے لوگ سیلاب کی قہرسامانیوں سے دوچار ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پورا علاقہ مہینوں تک پانی میں ڈوبا رہتا ہے، آمد و رفت کے لیے پل تو موجود ہے لیکن پل تک پہنچنا یہاں کی آبادی کے لیے ٹیڑھی کھیر ہے کیوں کہ سڑکیں خستہ حال ہیں۔ کاشت کاری پر منحصر یہاں کے لوگ ہر سال اپنی فصلیں نقصان ہوتا ہوا دیکھتے ہیں اور صبر کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

تنزلی کی غلامی میں جکڑا مشرقی چمپارن کا علاقہ، ویڈیو

تنگ و تاریک گلیاں ترواہ کی پسماندگی کی منہ بولتی تصویر بیان کرتی ہیں۔ غربت و افلاس سے جوجھتی اس آبادی میں کچے پکے مکانوں کا لامتناہی سلسلہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے تو زندگی گزارنے کے لیے بنی بے ترتیب جھگی جھونپڑیاں بھی یہاں مل جاتی ہیں۔ جن میں رہنے والوں کی بدقسمتی پر سرکاریں کوئی ترس نہیں کھاتیں۔ دور جدید میں بھی یہ علاقہ ترقی سے کوسوں دور ہے۔

تعلیم و صحت کے شعبے میں یہ خطہ ابھی تک دہائیوں پیچھے ہے۔ ترقی کی روشنی کی لو یہاں پہنچتے پہنچتے کافی مدھم ہوجاتی ہے۔ حالت یہ ہے کہ اس علاقے میں میٹرک پاس کرنے والے طلبا انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔صحت کےنام پر ایک پی ایچ سی ہے، جہاں پہنچنے کے لیے خراب سڑکیں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، حکومت کی فلاحی اسکیموں کی میعاد کب ختم ہوجاتی علاقے کے لوگوں کو اس کا پتہ ہی نہیں چلتا۔

ڈاکٹر ذاکر حسین ہائی اسکول کے منتظم عقیل احمد ترواہ کے رہنے والے ہیں، انہوں نے بتایا کہ اس علاقے کے پسماندہ طبقے کی تعلیمی حالت بہت ہی خراب ہے، جب کہ ترقی کا سب سے بڑا سرمایہ تعیلم ہوتا ہے۔

انہوں نے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ سِسونیا گاؤں میں دس ہزار کی آبادی پسماندہ طبقے کی ہے، لیکن اس طبقے کے صرف 10 تا 12 طلبا ہی میٹرک کے امتحان میں شرکت کر پاتے ہیں۔ جس علاقے کے بچے تعلیم سے کوسوں دور ہوں گے وہاں ترقی کی بات بے معنی ہی ہوگی۔

پٹنہ سے شائع ہونے والے اردو اخبار کے سینیئر صحافی عُزیر انجم نے بتایا کہ یہاں کے رائے دہندگان کے ووٹوں سے حکومت بنتی اور بگڑتی ہے لیکن ترواہ کے علاقے کو اس کا فائدہ ابھی تک نہیں ہوا۔ ووٹ مانگنے کے لیے ہر سیاسی جماعت کا رہنما آتا ہے۔ سبز باغ دکھاتا ہے، لوگوں سے قربت کے دعوے کرتا ہے، ان کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کراتا ہے اور انتخابات کے بعد وہ کبھی اس علاقے کا رخ بھی نہیں کرتا۔ یہاں کے ووٹر اب ان سے عاجز آ چکے ہیں۔ کیوں کے سارے وعدے سراب ثابت ہوتے ہیں۔

سِسونیا گاؤں کے رہنے والے ظہیر دیوان نے بتایا کہ راشن تو ملتا ہے۔ لیکن بجلی کا کھمبے ابھی تک یہاں نہیں نصب کیے گئے، اپنا تار خرید کر بجلی گھر تک لائے ہیں۔ جھونپڑی کے گھر میں رہنے والی نسیمہ خاتون نے بتایا کہ انکو اور ان کے شوہر کو پینشن نہیں ملتی، آواس یوجنا کا فائدہ اب تک نہیں ملا یہی وجہ ہے کہ یہ چھوٹی سی جھونپڑی ہی ان کا آشیانہ ہے۔

اجگری گاؤں کے رہنے والے لال بابو خان نے بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے ہر برس ان کی کاشت تباہ ہوجاتی ہے۔ کھیتی باڑی کرکے گزارا کرتے ہیں اور فصلیں ہی جب تباہ ہوجائیں تو ان کی زندگی کس قدر محال ہوگی اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ لیکن ان کی خبرگیری کو کوئی نہیں آتا، انتخابات کے وقت رہنما ووٹ مانگنے آتے ہیں۔ اور انتخابات کے بعد ہم ان کی تلاش میں رہتے ہیں۔

وہیں محمد قمرالزماں نے بتایا کہ پورا ترواہ سیلاب کی مار گزشتہ کئی دہائیوں سے جھیل رہا ہے۔ کوئی فصل نہیں ہو پاتی۔ سیلاب کا مسئلہ حل ہوجائے تو ہم بھی راحت کی سانس لیں۔ کھیتی باڑی ہوگی تو دو وقت کی روٹی کا انتظام بھی کرلیں گے۔

اس علاقے کے سماجی کارکن توصیف الرحمان نے بتایا کہ ترواہ کو ترقی کے پرفریب نعروں کے ذریعہ اب تک سیاسی رہنما دھوکہ دیتے آ رہے ہیں۔ سڑکوں کی حالت اس قدر ابتر ہے کہ ضلع کے صدر مقام تک جانے کے لیے بھی سوچنا پڑتا ہے۔ نہ ڈھنگ کا اسکول کالج ہے نہ ہسپتال۔ بیماروں کو بروقت موتیہاری نہ پہنچایا جائے تو اس کی موت یقینی ہے کیوں کہ سڑک کی خستہ حالت کی وجہ سے مریض کو ہسپتال پہنچاتے وقت وہ راستے میں ہی وہ دم توڑ دیتے ہیں۔ کئی خواتین بچے کو جنم دینے سے قبل ہی فوت ہوگئی ہیں۔

ترواہ علاقے کے ووٹ بینک پر تمام سیاسی پارٹیوں کی نظر رہتی ہے، سوا لاکھ پر مشتمل آبادی میں 60 ہزار مسلم ووٹ ہے، ترواہ کے سسوانیا، محمد پور، جٹوا اور سندپور میں 80 تا 90 فیصد پسماندہ طبقے کے لوگ آباد ہیں، جب کہ گوبری، کھیری اور اجگروا گاؤں میں 40 تا 50 فیصد مسلم آبادی ہے، اس کے علاوہ ترواہ کے دیگر گاؤں میں 20 تا 30 فیصد مسلم رہتے ہیں۔جن کے ووٹ کے لیے سیاسی رہنما ایک دوسرے پر حاوی رہتے ہیں۔ وعدوں کی برسات ہوتی ہے، ترقی کے سنہرے خواب دکھائے جاتے ہیں، لیکن یہاں کے لوگ اب اپنے مسائل کے ساتھ زندگی گزارنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ترواہ کے لوگوں کے لیے انتخابات کے بعد پھر وہی سیلاب، خستہ حال سڑکیں، سرکاری امداد کا انتظار، علاج کو ترستے مریض اور تعلیم سے محروم طلبا رہ جاتے ہیں۔

یہ خطہ ترقی کے مرکزی دھارے سے کب جڑے گا اور بنیادی سہولیات کا معقول انتظام کب تک ہوگا اس خطے کے لوگ اس کا کب تک انتظار کریں گے یہ چند ایسے سوالات ہیں جن کا جواب کب ملے گا کسی کو معلوم نہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.