ریاست بہار کا ایک ایسا اردو شاعر جس کے اشعار و کلام سے تحریک آزادی کے دوران انگریزی حکومت کی نیند حرام ہو گئی تھی وہ عظیم شخصیت اور تحریک آزادی میں اپنی غزل سے جوش و جذبہ اور انقلابی کیفیت پیدا کرنے والے شاعر کا نام سید شاہ محمد حسن بسمل عظیم آبادی ہے۔
جن کے اشعار 'سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے' دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے۔'
تحریک آزادی میں سب سے زیادہ ممتاز اور پڑھا جانے والا شعر تھا۔ یہ شعر سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے نہ صرف یہ کہ عوام الناس کو ریاست بہار کا ایک ایسا اردو شاعر جس کے اشعار و کلام سے تحریک آزادی کے دوران انگریزی حکومت کی نیند حرام ہوگئی تھی وہ عظیم شخصیت اور تحریک آزادی میں اپنی غزل سے جوش و جذبہ اور انقلابی کیفیت پیدا کرنے والے شاعر کا نام سید شاہ محمد حسن بسمل عظیم آبادی ہے. جن کے اشعار 'سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے' دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے۔'
تحریک آزادی میں سب سے زیادہ ممتاز اور پڑھا جانے والا شعر تھا، یہ شعر سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے نے نہ صرف یہ کہ عوام الناس کو جہد آزادی میں حصہ اور آزادی حاصل کرنے کے لیے اکسایا بلکہ اس کے خالق بسمل عظیم آبادی خود بھی اس میں بہ نفسِ نفیس شامل ہوئے لیکن آج زمانہ نے اس انقلابی نظم کے خالق کو بھلادیا۔
اس عظیم شاعر کو صرف ایک شاعر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ جب کہ انہوں نے تحریک آزادی میں اپنے انقلابی اشعار سے مجاہدین آزادی کے دلوں کو جوش و جذبہ اور سربکف ہونے جیسے جذبات سے بھردیا تھا۔ بسمل عظیم آبادی کے چاہنے والوں کو جس کا احساس اور اس کا ملال ہے۔
بسمل عظیم آبادی کے نواسے سید آفتاب حسنین کہتے ہیں کہ اپنوں اور اردو ادارے سے وابستہ افراد کی کوتاہی اور اندیکھی کی وجہ سے بسمل عظیم آبادی کا نام مجاہد آزادی کے طور پر یاد نہیں کیا گیا۔ جب کہ بسمل عظیم آبادی نے جلسے اور مشاعروں میں جہاں اپنے کلام سے تحریک آزادی کی ترجمانی کی تھی وہیں وہ سڑک سے لیکر تحریک آزادی کی ہر مہم میں شانہ بشانہ کھڑے رہے۔
جسمانی و مالی طور پر مجاہدین آزادی کی خدمت کی، خود بھی مجاہد آزادی کے طور پر آگے رہے. انگریزی حکومت کی نظر میں کھٹکتے رہے۔
اردو ادب کے معروف ادیب و سابق آئی جی معصوم عزیز کاظمی اپنی تحقیق اور مطالعہ کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ جتنا بسمل عظیم آبادی کے تعلق سے پڑھا یا سنا ہے اس سے واضح ہے کہ بسمل عظیم آبادی ایک عظیم شاعر کے ساتھ ساتھ مجاہد آزادی بھی تھے جنہوں نے خود بھی تحریک کی نمائندگی کی بلکہ مجاہدین آزادی اور ان کے کنبہ کے افراد تک مالی مدد بھی پہنچائی ہے۔
مجاہدین آزادی کی حوصلہ افزائی اور ان کے جوش و جذبے کو بڑھانے بلکہ یوں کہا جائے کہ انگریزی حکومت کے خلاف جہاد کے لیے انہوں نے ایک ایسی غزل لکھی جسے ہر مرد مجاہد آزادی نے اپنے لبوں پر گنگنایا ہے، تختہ دار پر لٹکنے سے پہلے اس شعر کو پڑھا ہے۔
بسمل عظیم آبادی مجاہد آزادی تھے یہ کسی کی گواہی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس بات کی گواہی ان کے اشعار آج بھی دے رہے ہیں۔ سرفروشی کی تمنا نظم کے خالق ہیں بسمل عظیم آبادی آزادی کے کچھ برسوں بعد یہ بحث چھیڑی گئی کہ یہ غزل جس کا مطلع سرفروشی کی تمنا ہے اس کے خالق کوئی اور ہی ہیں.
دراصل سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے. یہ غزل جب ہمارے کانوں میں پڑتی ہے تو ذہن میں رام پرساد بسمل کا نام ابھر آتا ہے. یہ غزل رام پرساد بسمل کی علامت بن گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان اشعار کے خالق رام پرساد بسمل نہیں بلکہ اس کے خالق شاعر بسمل عظیم آبادی ہیں اور ان کے مجموعہ کلام 'حکایت ہستی' میں کچھ دیگر مختلف اشعار کے ساتھ موجود ہے.
سابق آئی جی معصوم عزیز کاظمی اس تعلق سے کہتے ہیں کہ جب یہ بحث ایک زمانے میں شروع ہوئی تو شفیع مشہدی اور دیگر محققین نے ریسرچ کیا جس میں پایا گیا کہ تحریک آزادی کے دوران بھی اس وقت کے کئی اخبارات اور رسائل میں یہ اشعار بسمل عظیم آبادی کے نام سے شائع ہوئے ہیں اور بسمل عظیم آبادی ان اشعار کی وجہ سے انگریزی حکومت کے افسران کی نگاہ میں بسے تھے، سرفروشی کی تمنا لکھنے پر مقدمہ ہوا تھا، شہر گیا میں واقع وہائٹ ہاوس محلے میں مقیم بسمل عظیم آبادی کے نواسے سید آفتاب حسنین کہتے ہیں کہ 'سرفروشی کی تمنا' آزادی کی لڑائی کے وقت 1922 میں شائع ہوئی تو انگریزی حکومت تلملا گئی تھی۔
جس اخبار اور رسالے میں یہ غزل شائع ہوئی تھی اس کے ایڈیٹر نے خط لکھ کر بتایا کہ برطانوی حکومت نے پرچے کو ضبط کرلیا ہے۔' سر فروشی کی تمنا لکھنے کے بعد یہ شعر تیزی کے ساتھ پڑھے جانے لگے جس کے بعد بسمل عظیم آبادی کے خلاف انگریزی حکومت نے مقدمہ درج کیا تھا۔
جس کے بعد وہ کئی ماہ تک کلکتہ میں مقیم رہے بعد میں جب معاملہ پُرسکون ہوا تو وہ پٹنہ واپس آئے اور اس کے بعد بھی وہ مسلسل تحریک آزادی میں شامل رہے۔
دراصل اس غزل کا ملک کی جنگ آزادی میں ایک اہم کردار رہا ہے بسمل عظیم آبادی نہ صرف اپنے اشعار سے جذباتی طور پر تحریک آزادی میں شامل رہے بلکہ وہ خود بھی لوگوں کو تحریک آزادی میں شامل کرتے رہے، معصوم عزیز کاظمی کہتے ہیں کہ بسمل عظیم آبادی جسمانی طور پر بھی ملک کی آزادی کی تحریک میں تھے۔
انہوں نے ہر طرح کی کوشش کی ہے. آزادی کی تحریک میں اشعار و کلام، جسمانی اور مالی طور پر تعاون پیش کیا. ہاں یہ ہے کہ آج کے وقت میں انہیں بھلایا گیا ہے تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جنگ آزادی کی مہم کا سب سے افضل شعر عظیم آبادی کا شعر ہے. بلکہ یوں کہا جائے کہ بھارت کے ہر مجاہد آزادی کی زبان پر ان کے اشعار تھے۔
یہ بھی پڑھیں: امارت شرعیہ مسلمانوں کے تحفظ اور رفاہی کاموں میں مصروف: شمشاد رحمانی
گویا کہ یہ شعر اس وقت بھی ممتاز اور اہمیت کا حامل تھا اور آج بھی تحریک آزادی کا ذکر ہوتا ہے تو اس شعر کو نظر انداز کرکے تحریک آزادی کا ذکر کرنا ممکن نہیں ہے۔
بسمل عظیم آبادی یوں تو جیل نہیں گئے لیکن مورخین کے مطابق وہ کئی مرتبہ احتجاج ومظاہرے میں انگریزی حکومت کے خلاف شامل رہے جس کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ بسمل عظیم آبادی کچھ دنوں یا کچھ وقت کے لیے پولیس کی حراست میں رہے ہوں۔