شہر کی لڑکیوں کو کھیل کود کے میدان میں جلوے بکھیرنے کے قابل بنانے والے جس کوچ نے انھیں یہ راہ دکھائی تھی ان کی کہانی بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔
کچھ کر گزرنے کا جذبہ اور جنون رکھنے والے لوگ اپنا سب کچھ لٹاکر بھی ملک اور سماج کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
اسی جذبے سے سرشار سنجیو سنگھ نے اپنا کریئر داؤں پر لگا کر اپنے گاؤں کی بیٹیوں کو فٹ بال سکھانے لگے اور گاؤں کی بیٹیوں کو ایک نئی پہچان عطا کی۔
دراصل سنجیو سنگھ پہلے فوج میں تھے لیکن فٹ بال میں ان کی دلچسپی اس قدر تھی کہ انھوں نے اس کھیل کے لیے اپنی نوکری چھوڑ دی اور گاؤں آکر لڑکے اور لڑکیوں کو فٹ بال سیکھنے کی جانب راغب کیا۔
حالانکہ اس کی ابتدا انھوں نے چھوٹے درجے سے کی اور ٹریننگ دینے کے دوران انھوں نے لڑکی اور لڑکیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جس کی وجہ سے گاؤں کی لڑکیوں نے بھی فٹ بال کے میدان میں اپنا دم خم دکھایا۔
موجودہ وقت میں گاؤں کی 50 لڑکیاں اس میدان پر فٹ بال کھیل رہی ہیں اور دو درجن سے زائد لڑکیوں نے فٹ بال کے ذریعے بہار اور ملک کا نام روشن کیا ہے۔
ساتھ ہی یہ لڑکیاں متعدد سرکاری شعبوں میں نوکری حاصل کرنے میں کامیاب رہیں، فٹ بال میں لڑکیوں کی عمدہ کارکردگی کے سبب اس گاؤں کا نام ہی برونی کھیل گاؤں رکھ دیا گیا ہے۔
فٹ بال کوچ سنجیو سنگھ کا کہنا ہے کہ انھیں بچپن سے فٹ بال کھیلنے کا شوق ہے اور 13 برس کی عمر سے وہ فٹ بال کھیل رہے ہیں۔
انھوں نے مزید بتایا کہ 27 برس قبل جب اس گاؤں میں خواتین کو فٹ بال کھیلنے کی جانب راغب کرنا شروع کیا تھا تب انھیں سماج کی جانب سے کافی طعنے سننے پڑے تھے اور اس تعلق سے ان کی دشواریاں کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں، کیونکہ والدین اپنی لڑکیوں کو کسی بھی قیمت پر فٹ بال کھیلنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے اور ان کے والدین کی کافی منت سماجت کرنے کے بعد انھوں نے اپنی ذمہ داری پر ان لڑکیوں کو ٹریننگ دے کر انھیں ان کے پیروں پر کھڑا کیا۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ابھی حالات بدل چکے ہیں اور اب اس گاؤں کی تقریباً دو درجن سے زائد لڑکیوں نے فٹ بال کھیل کر اسپورٹس کوٹے سے سرکاری نوکری حاصل کی ہے، اب والدین خود اپنی لڑکیوں کو کھیل کود میں حصہ لینے کو کہتے ہیں۔
سنجیو سنگھ نے یہ بھی کہا مالی تنگی کے سبب انھیں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اگر حکومت اس جانب توجہ دے تو اس مہم کو وہ کافی آگے بڑھا سکتے ہیں کیونکہ درمیان میں فٹ بال ٹریننگ کو انھیں بند بھی کرنا پڑا تھا۔