روشنی کا تہوار دیوالی آج پورے ملک میں جوش و خروش کے ساتھ منایا جا رہا ہے، لوگ اپنے۔ اپنے گھروں کو الیکٹرانک لائٹ و دیگر ساز و سامان سے سجا رہے ہیں، مگر ایک طبقہ ایسا بھی ہے جن کا روزگار چکاچوند کرنے والی ان چائنیز روشنیوں کے سامنے دم توڑ رہا ہے۔
یہ طبقہ کمہاروں کا ہے جو زمانہ قدیم سے اپنے فن کا استعمال کرتے ہوئے مٹی سے کئی سامان تیار کرتے ہیں۔ان میں سے ایک دیا بھی ہے جسے دیوالی میں لوگ اپنے گھروں کو روشن کرتے ہیں۔ یہ دیے اب قصۂ پارینہ ہوگئے ہیں ، اب مٹی سے بنے ان دیوں کی جگہ چائنیز لائٹس نے لے لی ہے، جن سے لوگ اپنے گھروں کو سجاتے ہیں۔
کمہاروں کا یہ پیشہ خاندانی ہے، جسے وہ قدیم زمانے سے کرتے آ رہے ہیں، اسی فن کے بدولت یہ اپنے گھر کے لئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب دیوالی کی شب ان ہی مٹی کے دیئے جلانے سے ہوتی تھی کیونکہ اسے شبھ یعنی اچھا مانا جاتا تھا۔
دیوالی میں چکاچوند کرنے والی چائنیز لائٹ کے سامنے مٹی کے دیئے کی لوماند پڑگئی ہے۔ اس ٹمٹماتی لو میں کئی کمہاروں کا مستقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے۔
مٹی کے دیئے کے مانگ نہ ہونے سے کمہاروں کی بنیادی لاگت بھی وصول نہیں ہو رہی ہے۔ان کمہاروں کا روزگار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔ دوسروں کے گھروں کو روشن کرنے والے کمہار آج خود ہی لاچاری اور مفلسی کے اندھیروں میں جینے پر مجبور ہیں۔
کمہار کہتے ہیں کہ مہنگائی کے اس دور میں اب اس فن کی کمر ٹوٹ گئی ہے، پہلے کے مقابلے اس پیشہ میں منافع سے زیادہ خسارہ ہے، حکومت کی جانب سے بھی کوئی مالی تعاون نہیں ملتا جس سے اس روزگار کو باقی رکھنا مھال ہوگیا ہے۔
کمہار طبقہ اب اپنے بچوں کودوسرے کاموں میں لگا رہے ہیں۔ سماجی کارکن حیدر یاسین کہتے ہیں کہ حکومت کی باتوں میں تضاد ہے، ایک طرف وہ گھروں کو روشن کرنے کی بات تو کرتی ہے مگر کمہاروں کا گھر کیسے روشن ہوگا اس کی فکر نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے مارکیٹ میں بکنے والی چائنیز لائٹس پر پابندی لگائے تاکہ کمہاروں کا روزگار بڑھ سکے۔