ETV Bharat / state

ہزاروں کی آبادی ندی پر ایک پل کی تعمیر کے لیے ترس رہی ہے

بہار اور جھارکھنڈ کی سرحد پر واقع ہزاروں گھروں کی آبادی کو آج بھی ایک بڑی ندی میں داخل ہوکر گزرنا پڑتا ہے۔ دو ریاستوں سے ندی کے ہوکر گزرنےکی وجہ سے پل کی تعمیر نہیں ہوسکی ہے، نہ صرف مریضوں کو اسپتالوں میں پہنچانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ برسات کے موسم میں شادی بیاہ کا بھی سلسلہ رک جاتا ہے، ندی بہار کے ضلع گیا اور جھارکھنڈ کے چترا ضلع میں واقع ہے۔ A bridge must be constructed at Gaya Bihar

ہزاروں کی آبادی ندی پر ایک پل کی تعمیر کے لیے ترس رہی ہے
ہزاروں کی آبادی ندی پر ایک پل کی تعمیر کے لیے ترس رہی ہے
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 16, 2023, 4:31 PM IST

ہزاروں کی آبادی ندی پر ایک پل کی تعمیر کے لیے ترس رہی ہے

گیا: بھارت امرت مہوتسو میں ہے۔ تاہم آج بھی بہار کے ضلع گیا کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں بنیادی سہولتوں کے عدم سبب اہل علاقہ مشکلات سے دو چار ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ تبدیلی نہیں آئی ہے اور ترقیاتی کام نہیں ہوئے ہیں لیکن جہاں پر کسی ایک وجہ سے مشکلات درپیش ہیں، وہاں پر دستیاب سبھی سہولتیں پیچھے چھوٹ جاتی ہیں، ضلع گیا کا یہ علاقہ کوٹھی تھانہ کے تحت بیکوپور اور جھارکھنڈ کے پرتاپ پور تھانہ کا گھوریگھاٹ ہے۔ جس کے درمیان میں ایک مورہر ندی ہے اور اس ندی پر آج تک پل کی تعمیر نہیں ہوئی ہے، کوٹھی اور گھوریگھاٹ تاریخی جگہ ہے، اس علاقہ کو لوگ بزرگوں کے مسکن کے طور پر بھی جانتے ہیں، امارت شریعہ کے سابق امیر شریعت اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سابق جنرل سکریٹری حضرت مولانا سید نظام الدین مرحوم کا آبائی گاؤں گھوریگھاٹ ہی ہے اور یہاں وہ اپنی حیات میں آکر رہتے بھی تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

گیا :13 کروڑ کی لاگت سے بننے والا پل منہدم

کندا مہاراج کا علاقہ

اس علاقہ کو کندا مہاراج کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس علاقہ میں دونوں طبقہ کی آبادی بستی ہے البتہ اکثریتی آبادی مسلم طبقہ کی ہے، سبھی طبقہ کا آپسی اتحاد بھی ہے، 80 کی دہائی کے بعد علاقہ نکسل ازم سے متاثر ہوا۔ تاہم 2010 کے بعد حالات بہتر ہوئے اور کئی بنیادی سہولتوں کی فراہمی بھی ہوئی، بجلی، پانی اور سڑک سمیت بنیادی سہولتوں پر کام ہوا لیکن سینکڑوں گاوؤں کو جوڑ نے والی مورہر ندی پر ایک عدد پل کے لیے آزادی کے بعد سے ہی لوگ ترس رہے ہیں۔ اس ندی کی وجہ سے سب سے زیادہ جھارکھنڈ کے ماتحت علاقہ کے لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے۔ کیونکہ بڑی مارکیٹ سے لیکر چھوٹے وبڑے اسپتال گیا ضلع کے علاقہ میں واقع ہے، جہاں جھارکھنڈ کے ماتحت علاقہ کے لوگوں کو جانے کے لیے اسی ندی سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے۔



برسات میں قبرستان بھی جانے میں ہوتی ہے پریشانی
گھوریگھاٹ، مراد ڈیہہ، جعفر ڈیہہ کے ساتھ جولابیگہ اور کئی گاؤں وٹولے کی قبرستان ندی کے دوسری جانب سے بیکوپور گیا ضلع میں واقع ہے، برسات میں جنازہ قبرستان لے جانے میں کافی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ کیونکہ ندی میں داخل ہوکر جانا پڑتا ہے اور ندی میں پانی ہونے کی وجہ سے جنازے کو پانی کم ہونے تک گھر پر روکنا پڑتا ہے، گیا ضلع کے علاقہ میں تین قبرستان بیکوپور عالم خان شہید، کوٹھی قبرستان اور تلواری قبرستان ہیں اور تینوں قبرستان میں جھارکھنڈ کے ان گاؤں سے میت تدفین کے لیے پہنچتی ہے، ندی میں زیادہ پانی ہونے کی وجہ سے قریب 10 کلومیٹر گھوم کر قبرستان جانا پڑتا ہے۔

ہزاروں آبادی ہے متاثر
دراصل جھارکھنڈ کے چترا ضلع اور بہار کے ضلع گیا کے حصے پر ندی واقع ہے، مقامی باشندہ رفیق الرحمٰن خان نے بتایا کہ ندی کا نصف حصہ بہار میں اور نصف حصہ جھارکھنڈ میں واقع ہے، دو ریاستوں میں ہونے کی وجہ سے دونوں ریاستی حکومتیں اس پر توجہ نہیں دے رہی ہیں۔ اتفاق یہ ہے کہ گزشتہ 10 برسوں سے دونوں ریاست کے پارلیمانی حلقہ ' اورنگ آباد اور چترا ' کے رکن پارلیمنٹ بی جے پی کے ہیں لیکن دونوں رکن پارلیمنٹ نے بھی علاقہ کی اس ندی کے لیے کوئی خاص پہل نہیں کی ہے۔ اگر ان کی پہل ہوتی تو مرکزی حکومت کے طرف سے ندی پر پل بن سکتا تھا، رفیق الرحمٰن خان نے مزید کہا کہ اب تو حالات یہ ہیں کہ زندگی میں شادی بیاہ اور مرنے کے بعد جنازہ قبرستان تک پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے، اگر ندی پر پل نہیں بنا تو اس علاقہ کے لوگوں کو شادی کے لیے دوسری جگہوں سے رشتے بھی نہیں آئیں گے۔

پچاس ہزار سے زیادہ آبادی متاثر ہے
مورہر ندی پر پل نہیں ہونے کی وجہ سے سینکڑوں گاؤں اور ٹولے کی 50 ہزار سے زیادہ آبادی کو آمد ورفت میں پریشانی ہوتی ہے، ابھی ندی میں پانی تو بہت کم ہے لیکن ریت کی وجہ سے لوگ ہر دن گاڑیوں سے گزرنے کے دوران حادثے کا شکار ہوتے ہیں، پچاس ہزار سے زیادہ آبادی کو مارکیٹ اور علاج کے لیے گیا ضلع کے امام گنج اور رانی گنج جانا پڑتا ہے، نسیم خان نے بتایا کہ گھوریگھاٹ سے قریب 8 کلو میٹر کے فاصلہ پر امام گنج واقع ہے اور پندرہ سے بیس منٹوں کا سفر ہے۔ تاہم ندی ہونے کی وجہ سے یہ مسافت بڑھ جاتی ہے اور گھوریگھاٹ سے امام گنج کا فاصلہ قریب 18 کلومیٹر کا ہوجاتا ہے۔ حالانکہ اس علاقہ میں ان سبھی ندیوں پر پل کی تعمیر ہوچکی ہے جو کسی ایک ریاست ' بہار جھارکھنڈ ' میں واقع ہیں۔ چونکہ یہ ندی دو ریاستوں میں ہے، اس وجہ سے اس پر پل کی تعمیر نہیں ہوسکی ہے، اب اس علاقہ کے لوگوں کو دونوں ریاست کے وزراء اعلی ' نتیش کمار اور ہیمنت سرین ' کے ساتھ وزیراعظم نریندر مودی پر امید لگی ہوئی ہے کہ کسی ایک کی پہل پر پل بن سکتا ہے۔

الیکشن ہوتا ہے عوامی مسئلہ
مورہر ندی پر پل نہیں ہے اور اس وجہ سے پارلیمانی انتخابات کے دوران اس مسئلہ کو عوامی موضوع بنایا جاتا ہے، الیکشن کے دوران امیدوار بھی کئی وعدے کرتے ہیں لیکن جیت کے بعد ہی اس امیدوار کا وعدہ سرد خانوں میں چلا جاتا ہے، الیکشن کے دوران امیدوار خوب وعدے کرتے ہیں لیکن پھر اس پر کوئی کام نہیں ہوتا، اب تو امیدیں ٹوٹنے لگتی ہیں، ضلع گیا کے بیکوپور کوٹھی کوسماہی، دھریرا، حیات چک، باہا، صوبڑی اور تلواری سمیت کئی گاؤں ہیں۔ جن کو سلداہا بازار اور اس کے علاقہ میں جانے کے لیے ندی سے ہوکر جانا پڑتا ہے۔ جب کہ جھارکھنڈ کے گھوریگھاٹ، سلداہا بازار، متھورا پور، جھگرا، بھرہی، راج پور، کیولیا، بورا، کورا، تمیا، مرکا، تیتریا، ہیڈ دوہر، جگن ڈیہہ سمیت کئی گاؤں ہیں، جہاں کے باشندوں کا امام گنج اور گیا کے لیے اسی ندی سے گزر ہوتا ہے۔

ہزاروں کی آبادی ندی پر ایک پل کی تعمیر کے لیے ترس رہی ہے

گیا: بھارت امرت مہوتسو میں ہے۔ تاہم آج بھی بہار کے ضلع گیا کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں بنیادی سہولتوں کے عدم سبب اہل علاقہ مشکلات سے دو چار ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ تبدیلی نہیں آئی ہے اور ترقیاتی کام نہیں ہوئے ہیں لیکن جہاں پر کسی ایک وجہ سے مشکلات درپیش ہیں، وہاں پر دستیاب سبھی سہولتیں پیچھے چھوٹ جاتی ہیں، ضلع گیا کا یہ علاقہ کوٹھی تھانہ کے تحت بیکوپور اور جھارکھنڈ کے پرتاپ پور تھانہ کا گھوریگھاٹ ہے۔ جس کے درمیان میں ایک مورہر ندی ہے اور اس ندی پر آج تک پل کی تعمیر نہیں ہوئی ہے، کوٹھی اور گھوریگھاٹ تاریخی جگہ ہے، اس علاقہ کو لوگ بزرگوں کے مسکن کے طور پر بھی جانتے ہیں، امارت شریعہ کے سابق امیر شریعت اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سابق جنرل سکریٹری حضرت مولانا سید نظام الدین مرحوم کا آبائی گاؤں گھوریگھاٹ ہی ہے اور یہاں وہ اپنی حیات میں آکر رہتے بھی تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

گیا :13 کروڑ کی لاگت سے بننے والا پل منہدم

کندا مہاراج کا علاقہ

اس علاقہ کو کندا مہاراج کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس علاقہ میں دونوں طبقہ کی آبادی بستی ہے البتہ اکثریتی آبادی مسلم طبقہ کی ہے، سبھی طبقہ کا آپسی اتحاد بھی ہے، 80 کی دہائی کے بعد علاقہ نکسل ازم سے متاثر ہوا۔ تاہم 2010 کے بعد حالات بہتر ہوئے اور کئی بنیادی سہولتوں کی فراہمی بھی ہوئی، بجلی، پانی اور سڑک سمیت بنیادی سہولتوں پر کام ہوا لیکن سینکڑوں گاوؤں کو جوڑ نے والی مورہر ندی پر ایک عدد پل کے لیے آزادی کے بعد سے ہی لوگ ترس رہے ہیں۔ اس ندی کی وجہ سے سب سے زیادہ جھارکھنڈ کے ماتحت علاقہ کے لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے۔ کیونکہ بڑی مارکیٹ سے لیکر چھوٹے وبڑے اسپتال گیا ضلع کے علاقہ میں واقع ہے، جہاں جھارکھنڈ کے ماتحت علاقہ کے لوگوں کو جانے کے لیے اسی ندی سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے۔



برسات میں قبرستان بھی جانے میں ہوتی ہے پریشانی
گھوریگھاٹ، مراد ڈیہہ، جعفر ڈیہہ کے ساتھ جولابیگہ اور کئی گاؤں وٹولے کی قبرستان ندی کے دوسری جانب سے بیکوپور گیا ضلع میں واقع ہے، برسات میں جنازہ قبرستان لے جانے میں کافی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ کیونکہ ندی میں داخل ہوکر جانا پڑتا ہے اور ندی میں پانی ہونے کی وجہ سے جنازے کو پانی کم ہونے تک گھر پر روکنا پڑتا ہے، گیا ضلع کے علاقہ میں تین قبرستان بیکوپور عالم خان شہید، کوٹھی قبرستان اور تلواری قبرستان ہیں اور تینوں قبرستان میں جھارکھنڈ کے ان گاؤں سے میت تدفین کے لیے پہنچتی ہے، ندی میں زیادہ پانی ہونے کی وجہ سے قریب 10 کلومیٹر گھوم کر قبرستان جانا پڑتا ہے۔

ہزاروں آبادی ہے متاثر
دراصل جھارکھنڈ کے چترا ضلع اور بہار کے ضلع گیا کے حصے پر ندی واقع ہے، مقامی باشندہ رفیق الرحمٰن خان نے بتایا کہ ندی کا نصف حصہ بہار میں اور نصف حصہ جھارکھنڈ میں واقع ہے، دو ریاستوں میں ہونے کی وجہ سے دونوں ریاستی حکومتیں اس پر توجہ نہیں دے رہی ہیں۔ اتفاق یہ ہے کہ گزشتہ 10 برسوں سے دونوں ریاست کے پارلیمانی حلقہ ' اورنگ آباد اور چترا ' کے رکن پارلیمنٹ بی جے پی کے ہیں لیکن دونوں رکن پارلیمنٹ نے بھی علاقہ کی اس ندی کے لیے کوئی خاص پہل نہیں کی ہے۔ اگر ان کی پہل ہوتی تو مرکزی حکومت کے طرف سے ندی پر پل بن سکتا تھا، رفیق الرحمٰن خان نے مزید کہا کہ اب تو حالات یہ ہیں کہ زندگی میں شادی بیاہ اور مرنے کے بعد جنازہ قبرستان تک پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے، اگر ندی پر پل نہیں بنا تو اس علاقہ کے لوگوں کو شادی کے لیے دوسری جگہوں سے رشتے بھی نہیں آئیں گے۔

پچاس ہزار سے زیادہ آبادی متاثر ہے
مورہر ندی پر پل نہیں ہونے کی وجہ سے سینکڑوں گاؤں اور ٹولے کی 50 ہزار سے زیادہ آبادی کو آمد ورفت میں پریشانی ہوتی ہے، ابھی ندی میں پانی تو بہت کم ہے لیکن ریت کی وجہ سے لوگ ہر دن گاڑیوں سے گزرنے کے دوران حادثے کا شکار ہوتے ہیں، پچاس ہزار سے زیادہ آبادی کو مارکیٹ اور علاج کے لیے گیا ضلع کے امام گنج اور رانی گنج جانا پڑتا ہے، نسیم خان نے بتایا کہ گھوریگھاٹ سے قریب 8 کلو میٹر کے فاصلہ پر امام گنج واقع ہے اور پندرہ سے بیس منٹوں کا سفر ہے۔ تاہم ندی ہونے کی وجہ سے یہ مسافت بڑھ جاتی ہے اور گھوریگھاٹ سے امام گنج کا فاصلہ قریب 18 کلومیٹر کا ہوجاتا ہے۔ حالانکہ اس علاقہ میں ان سبھی ندیوں پر پل کی تعمیر ہوچکی ہے جو کسی ایک ریاست ' بہار جھارکھنڈ ' میں واقع ہیں۔ چونکہ یہ ندی دو ریاستوں میں ہے، اس وجہ سے اس پر پل کی تعمیر نہیں ہوسکی ہے، اب اس علاقہ کے لوگوں کو دونوں ریاست کے وزراء اعلی ' نتیش کمار اور ہیمنت سرین ' کے ساتھ وزیراعظم نریندر مودی پر امید لگی ہوئی ہے کہ کسی ایک کی پہل پر پل بن سکتا ہے۔

الیکشن ہوتا ہے عوامی مسئلہ
مورہر ندی پر پل نہیں ہے اور اس وجہ سے پارلیمانی انتخابات کے دوران اس مسئلہ کو عوامی موضوع بنایا جاتا ہے، الیکشن کے دوران امیدوار بھی کئی وعدے کرتے ہیں لیکن جیت کے بعد ہی اس امیدوار کا وعدہ سرد خانوں میں چلا جاتا ہے، الیکشن کے دوران امیدوار خوب وعدے کرتے ہیں لیکن پھر اس پر کوئی کام نہیں ہوتا، اب تو امیدیں ٹوٹنے لگتی ہیں، ضلع گیا کے بیکوپور کوٹھی کوسماہی، دھریرا، حیات چک، باہا، صوبڑی اور تلواری سمیت کئی گاؤں ہیں۔ جن کو سلداہا بازار اور اس کے علاقہ میں جانے کے لیے ندی سے ہوکر جانا پڑتا ہے۔ جب کہ جھارکھنڈ کے گھوریگھاٹ، سلداہا بازار، متھورا پور، جھگرا، بھرہی، راج پور، کیولیا، بورا، کورا، تمیا، مرکا، تیتریا، ہیڈ دوہر، جگن ڈیہہ سمیت کئی گاؤں ہیں، جہاں کے باشندوں کا امام گنج اور گیا کے لیے اسی ندی سے گزر ہوتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.