بہار کا صحت کا نظام ہمیشہ سے ہی اپنی خامیوں کی وجہ سے سرخیوں میں رہتا ہے۔حکومت چاہے لاکھوں دعوے کر لے کہ اس نے صحت کے میدان میں بے پناہ ترقی کی ہے۔لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس ہی ہے۔ یہاں تک یہ دعوے اعدادوشمار پر بھی درست ثابت نہیں ہوتے ہیں۔ یہ سال بہار کا انتخابی سال تھا۔ کورونا اور ڈیجیٹل دور میں جہاں قائدین انتخابی مہم کی تشہیر کرنے میں سرگرم نظر آئے۔ وہیں لوگوں کی صحت پر حکومت کی غفلت طاری واضح طور پر نظر آئی اور یہ بات ہم نہیں کہہ رہے بلکہ حکومت ہند کی جانب سے جاری کردہ ای سنجیونی او پی ڈی کے اعداد و شمار کہہ رہے ہیں۔
مرکزی حکومت کی جانب سے ڈیجیٹل صحت کی پہل کی شروعات کی گئی تھی۔وزارت صحت اور خاندانی بہبود کے قومی ٹیلی میڈیسن اقدام ای سنجیوانی نے 8 لاکھ طبی مشاورت کی تکمیل کرلی۔ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بہار کے کتنے لوگوں کو مشاورت ملی۔سوال بہت سنجیدہ اور بڑا ہے کیوں کہ مرکزی وزیر مملکت برائے صحت اشوینی چوبے بہار سے ہی آتے ہیں۔
بہار سے صرف چار مشورے دئے گئے
سنجیونی او پی ڈی پلیٹ فارموں کے ذریعے سب سے زیادہ مشورے لینے والی ریاستوں میں اول نمبر پر تمل ناڈو (259904) ، اتر پردیش (219715) ، کیرالا (58000) ، ہماچل پردیش (46647) ، مدھیہ پردیش (43045) گجرات (41765) ، آندھرا پردیش (35217) ، اتراکھنڈ (26819) ، کرناٹک (23008) ، مہاراشٹرا (9741) ہیں۔جبکہ بہار میں صرف 4 افراد کی کونسلنگ کی گئی تھی
بہار سب سے پیچھے کیوں؟
بہار ملک کی سب سے بڑی ریاستوں کی فہرست میں آتا ہے۔ ایسی صورتحال میں مرکزی حکومت کی جانب سے ای سنجیوانی ایپ کے ذریعےلوگوں کو طبی مشورے دیئے جارہے ہیں۔ لیکن بہار میں اس سے صرف چار افراد کو فائدہ ہوا۔جو کہ کافی حیران کردینا والا اعداد و شمار ہے۔کیا حکومت نے اس سمت لوگوں کو آگاہ نہیں کیا یا انتخابی ماحول کے درمیان ڈاکٹروں نے لوگوں کو مشورہ دینا مناسب نہیں سمجھا۔یا حکومت کورونا کی بازیابی کی شرح کو دیکھتے ہوئے اس کا جائزہ لینے میں ناکام رہی۔
تاہم بہار اپنے صحتیابی کی شرح کی وجہ سے یہ جنگ جیت رہا ہے۔یہاں کے لوگوں کا مدافعتی نظام مضبوط دیکھائی دیتا ہے، ورنہ تو حکومت کے نظام کو دیکھتے ہوئے ہم اس کا اندازہ لگا ہی سکتے ہیں۔