گیا: بہار کا ضلع گیا ہندو اور مسلم اتحاد کا مظہر ہے اور یہاں کی روایت آپسی بھائی چارے کی رہی ہے۔ حالانکہ اس بھائی چارے اور اتحاد پر سماج دشمن عناصر کی بری نگاہ پڑی ہے لیکن اہل گیا کی بھائی چارگی نے ان کے ناپاک ارادوں کامیاب نہیں ہونے دیا ہے۔ آج وجے دشمی ہے اور برائی پر اچھائی کی جیت کی علامت کے طور پر آج ' راون ودھ ' ہوگا، گیا ضلع میں 60 فٹ اونچا راون شام 5 بجے جلے گا اور اس کے لیے ہزاروں ہندو جمع ہوں گے۔ یہاں راون ودھ کے بعد رات نو بجے سے مورتیوں کے وسرجن جلوس کا وقت شروع ہوگا اور اس رات کو پانچ مورتیوں کا وسرجن ہوگا۔ ان پانچ مورتیوں کے وسرجن جلوس نکلنے کی تاریخ سو برس پرانی ہے اور اس جلوس پر سماج دشمن عناصر کی نگاہ ہوتی ہے، اس میں کشیدگی پیدا کرکے صدیوں پرانے ہندو مسلم اتحاد کو توڑنے کی کوشش ہوتی ہے لیکن انتظامیہ کے سخت ترین حفاظتی انتظامات اور گیا کے ہندو مسلم اتحاد اور مستعدی کی وجہ سے ان کی ایک نہیں چلتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
Gaya Karbala Hindu Muslim Unity گیا کا کربلا ہندو مسلم اتحاد کا مظہر
پانچ مورتیوں کا وسرجن جلوس نکالنے کی روایت
یہاں دونوں طبقے کے لوگ مل کر پوجا کی شان کو برقرار رکھنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ دراصل وجے دشمی کی رات کو جس جگہ سے پانچ مورتیوں کے وسرجن جلوس نکلنے کی روایت ہے وہاں پر ہندو مسلم کے تاریخی مذہبی مقام ہیں، یہاں پر جامع مسجد اور دکھ ہرنی مندر واقع ہے۔ بس یوں سمجھیں کہ کاشی کی گیان واپی مسجد اور وشواناتھ مندر کی طرح ہی گیا کے سرائے روڈ پر واقع دونوں مذہبی مقام کی دیواریں ایک دوسرے سے ملحق ہیں، فرق یہ کہ گیان واپی مسجد اور وشواناتھ مندر کا معاملہ اب عدالت میں ہے اور گیا میں آپسی محبت سماجی ہم آہنگی اور اتحاد کی مثال پیش کی جار ہی ہے۔ یہ بے مثال اتحاد وجے دشمی کے دن نظر بھی آتا ہے۔ کیونکہ دکھ ہرنی مندر کے پجاری اور جامع مسجد کمیٹی کے ارکان مورتیوں کو پرامن ماحول میں گزارنے کے لیے مسجد کی سیڑھیوں پر ایک ساتھ بیٹھتے ہیں اور ان کے ساتھ ہندو مسلم طبقہ کے دانشوران، سماجی شخصیات اور انتظامیہ کے افسران موجود ہوتے ہیں اور سبھی آپس میں ہنسی مذاق کے ساتھ وسرجن جلوس کے اختتام تک موجود ہوتے ہیں۔
ملک میں جہاں تہواروں کے موقع پر اکثر کشیدگی کی خبریں سرخیوں میں ہوتی ہیں۔ وہیں بہار کے ضلع گیا نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال قائم کی ہے، جامع مسجد کے علاقے کے لوگ آپس میں اچھے پڑوسیوں کی طرح مل کر رہتے ہیں۔ جامع مسجد کمیٹی کے سکریٹری سید حسنین اختر کہتے ہیں کہ ہمارا اتحاد یوں ہے کہ جب گزشتہ برس جامع مسجد کمیٹی کی جانب سے غریب مسلم نوجوانوں کے لیے بی پی ایس سی کوچنگ سینٹر قائم کیا گیا تو اس کی افتتاحی تقریب میں بچوں کو دعاؤں سے نوازنے کے لیے مندر کے پجاری کو بھی مدعو کیا گیا۔
ایک بار ہوا ہے فساد
قریب 450 برس قدیم گیا کی مشہور دکھ ہرنی مندر سرائے محلے میں واقع ہے۔ یہیں پر جب جامع مسجد بنی تو اس وقت سے مندر اور مسجد کمیٹی کے درمیان آپسی اتحاد قائم ہوا لیکن جنگ آزادی کے دوران آپسی اتحاد اور انگریزی حکومت کے خلاف ہندو مسلموں کی ایک ساتھ تحریک نے انگریزوں کی نیند حرام کردی، انگریزی حکومت کو یہ اتحاد پسند نہیں آیا اور اس کو ختم کرنے کے لیے انگریزوں نے چال چلی اور یہاں پر مذہبی منافرت پھیلانا شروع کردیا، مسجد آباد ہونے کے قریب 45 برسوں بعد سنہ 1936 میں وجے دشمی کو عین نماز کے دوران مسجد کے پاس سے شہر کی پانچ مورتیوں کو گزارنے کے لیے جلوس نکلوادیا گیا اور اس دوران زبردست طریقے سے پرتشدد ہنگامہ ہوا اور انگریزی حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی۔
ایکتا منچ کے کنوینر مسعود منظر نے بتایا کہ گیا میں پہلی مرتبہ سنہ 1936 میں درگا پوجا کے موقع پر فساد ہوا تھا۔ غالباً بھارت کا یہ پہلا فرقہ وارانہ فساد تھا۔ شہر کے مرار پور کے رہنے والے مینا پنڈت نے مورتی نصب کی تھی اور وہ مورتی کے وسرجن کے لیے جلوس کو دکھ ہرنی مندر سے جامع مسجد راستے ہوتے ہوئے لے جانا چاہتے تھے۔ چونکہ اس وقت تحریک آزادی کی لڑائی بھی جاری تھی، موقع غنیمت جانتے ہوئے انگریزوں نے اس کو مزید ہوا دے دی اور جلوس اس راستے سے گزارنے کی بات کو لے کر دو فرقوں میں تصادم ہوا۔ جس نے بعد میں فرقہ وارانہ رخ اختیار کرلیا۔ حالانکہ بعد میں مقامی ہندو اور مسلمانوں کی معزز شخصیات کی پہل پر حالات کو پرسکون کردیا گیا۔ تاہم اس کے بعد سے اس علاقے کی درگا پوجا کے موقع پر خاص طور سے دسویں کی رات کو انتہائی حساس مقام کے طور پر پہچان ہوگئی۔ حالانکہ 1936 کے بعد فساد نہیں ہوا لیکن تنازعہ اکثر و بیشتر ہوجاتے ہیں۔
وقت میں 1981 میں ہوئی تبدیلی
سماجی کارکن لال جی پرساد کا کہنا ہے کہ پانچ مورتیاں وسرجن کے لیے جامع مسجد راستے سے جاتی ہیں۔ جن میں گول پتھر، نئی گودام، جھیل گنج، توتبارری اور دکھ ہرنی گیٹ کے پاس کی مورتیاں شامل ہوتی ہیں۔ پہلے دن شہر میں صرف ان پانچ مورتیوں کا وسرجن کیا جاتا ہے۔ باقی مورتیوں کے وسرجن کا عمل دوسرے دن سے شروع ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جامع مسجد اور دکھ ہرنی مندر کے راستے یہ جلوس گاندھی میدان میں لنکا دہن کے وقت گزرتا تھا اور یہ وقت مغرب اور عشاء کے درمیان کا ہوتا تھا۔ نماز کی وجہ سے پیش آرہی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے سنہ 1981 میں اس وقت کے کوتوالی تھانہ انچارج پی پی شرما نے وقت میں تبدیلی کر دی اور عشاء کی نماز کے بعد نو بجے سے مورتی وسرجن جلوس نکالنے کی اجازت دی۔ حالانکہ اس کے لیے کئی سماجی کارکنان نے کڑی محنت کی اور قانونی لڑائی لڑی تھی۔ مسعود منظر بھی اس معاملے میں پیش پیش رہے اور وہ اس معاملے کی مخالفت کرنے پر جیل بھی گئے لیکن وقت بدلتے ہی یہاں کا ماحول پرسکون ہو گیا اور اب آپسی بھائی چارے کے ساتھ برسوں سے یہاں پانچوں مورتیوں کا وسرجن جلوس نکالا جاتا ہے۔
کی جاتی ہے مثال پیش
یہاں پر مورتی وسرجن جلوس کو پرامن ماحول میں گزارنے کے لیے ہر طرح سے تیاری ہوتی ہے، آپسی بھائی چارے کی مثال پیش کی جاتی ہے، ہندو بھائیوں کی طرف سے مسلمانوں کو پرساد دیا جاتا ہے، وہیں مسلمانوں کی طرف سے پانی اور چائے کا بھی انتظام ہوتا ہے، گلاب کا پھول بھی دونوں طبقے کے معززین ایک دوسرے کو دیتے ہیں ، ہندو مسلمانوں کے اتحاد پر مشتمل تنظیم اکتا منچ کے ارکان بھی یہاں موجود ہوتے ہیں اور یہ تنظیم پچھلے تین دہائیوں سے تہواروں میں آپسی بھائی چارہ کو برقرار رکھنے کے تعلق سے کام کر رہی ہے۔
جانیں مسجد اور مندر کی تاریخ
گیا شہر کی جامع مسجد بہار کی بڑی اور خوبصورت مسجدوں میں سے ایک ہے اس عالیشان مسجد کی تعمیر میر ابو صالح نے سن 1890 سے 1898 کے دوران کروایا تھا۔ میر ابو صالح کڑاہ کے نواب تھے ،کڑاہ جوکہ اب نالندہ ضلع میں واقع ہے اس کے قیام میں پہلے کڑاہ کے نواب ہی مسجد کی پوری تعمیر کے اخراجات برداشت کررہے تھے لیکن بعد میں لوگوں نے نواب سے مانگ کی وہ بھی اس میں تعاون کریں گے جس کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ سبھی کے تعاون سے اس کی تعمیر ہوگی، جامع مسجد کی کافی املاک ہے، سنی وقف بورڈ پٹنہ سے جامع مسجد اور اُس کی املاک رجسٹرڈ ہے۔
جامع مسجد بہار کی پہلی ایسی مسجد ہے جس کے اندر قوم کے نونہالوں کو افسر بنانے کے لیے بی پی ایس سی کوچنگ سینٹر قائم کیا گیا ہے۔ جب کہ دکھ ہرنی مندر کی تاریخ مسجد سے دو سو برس زیادہ ہے۔ گیا شہر میں واقع دکھ ہرنی مندر کو قریب 450 سال ہو چکا ہے۔ مندر کے پاس ایک پرانا گیٹ بنا ہوا ہے ایسا کہا جاتا ہے کہ یہ گیٹ گیا شہر میں داخل ہونے کے لیے بنایا گیا تھا۔ہندو طبقے کے لیے یہ مندر کافی اہمیت کی حامل ہے۔ یہاں ہر روز عقیدت مندوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ ایسی عقیدت ہے کہ مصیبت زدو یہاں آتے ہیں اُن کی مصیبت دور ہوتی ہے۔
انتظامیہ کا ہوتا ہے سخت پہرہ
دکھ ہر نی مندر کے پاس سے نکل کر جلوس جامع مسجد کے صدر دروازے سے ہوتے ہوئے گزرتا ہے۔ یہاں ایک ایک کر کے مورتیوں کو پولیس کی نگرانی میں گزارا جاتا ہے۔ پولیس کی جانب سے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے پورے علاقے میں بریکٹنگ کی جاتی ہے ۔ضلع پولیس کے علاوہ سی آر پی ایف کے جوانوں کو بھی تعینات کیا جاتا ہے تاکہ کشیدگی کی صورتحال پیدا ہو تو فوری طور پر اس پر قابو پایا جا سکے۔ یہاں خود ڈی ایم اور ایس ایس پی کے علاوہ دیگر افسران موجود ہوتے ہیں۔ نو بجے سے مورتیوں کے جلوس گزرنے کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور یہ دیر رات تک سلسلہ چلتا ہے۔ حالانکہ انتظامیہ کی جانب سے رات 11 بجے تک کا وقت متعین ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں ہو پاتا کہ وقت پر جلوس گزر جائیں۔
انتظامیہ کی جانب سے پورے علاقے میں بجلی کا بھی انتظام ہوتا ہے اور ساتھ ہی سی سی ٹی وی کیمرے ویڈیو گرافی اور ڈرون کیمروں سے نگاہ رکھی جاتی ہے۔ اس بار بھی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ پورے علاقے میں بریکیٹنگ کی گئی ہے ڈی ایم اور ایس ایس پی نے کل رات بھی پہنچ کر پورے علاقے کا جائزہ لیا تھا اور افسران کو کئی ضروری ہدایات دی تھیں ۔ وہیں سماجی کارکنان کی جانب سے پرامن ماحول میں مورتی وسرجن جلوس نکالنے کی اپیل کی گئی ہے خاص طور پر مسعود منظر اور مولنا عمر نورانی نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں بلاوجہ وہ اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلیں، گیا کی روایت گنگا جمنی تہذیب اور آپسی بھائی چارے کی رہی ہے اس روایت کو ہر حال میں برقرار رکھنا ہے۔