انہوں نے کہا کہ 'امت شاہ نے کہا کہ وہ بہاری بابو (سنہا) کو ان کی اوقات دکھائیں گے۔ جس انداز میں وزیراعظم نریندر مودی نے بہار کے ڈی این اے کے بارے میں بات کی ہے۔ بہار کے عوام اسمبلی کے انتخابات میں انہیں ان کی اوقات بتا دیں گے۔'
سنہا نے دعویٰ کیا کہ 'انہیں بی جے پی کے سینیئر رہنما ایل کے اڈوانی کی حمایت کرنے کی قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جسے آپ خودغرضی کہہ سکتے ہیں۔ میں نے نوٹ بندی کے خلاف کہا۔ میں نے کہا کہ پارٹی ایک شخص سے بڑی ہے اور ملک پارٹی سے بڑا ہے۔ میں نے ملک کی فلاح کے لیے ہمیشہ بات کی۔ میں نے پیچیدہ جی ایس ٹی کے خلاف بھی بات کی۔'
انہوں نے کہا کہ' لوگوں نے کہا کہ میں پارٹی سے بغاوت کر رہا ہوں۔ میں اب بھی پارٹی کے کئی اراکین کا احترام کرتا ہوں لیکن پارٹی میں جمہوریت ختم ہوگئی ہے اور آمریت شروع ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ، اٹل بہاری واجپئی جیسے دانشوروں کے دور میں جمہوریت تھی لیکن اب آپ دیکھ سکتے ہیں ون مین شو اور ٹو مین آرمی۔'
انہوں نے کہا کہ 'میں نے ان (مودی) کے خلاف کبھی نہیں کہا۔ میں نے ان کی پالیسیز کے خلاف کہا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اس لیے یہ کہہ رہا ہوں چونکہ مجھے وزیر نہیں بنایا گیا۔ میں ان کی پروپیگنڈہ مشین کا حصہ نہیں بن سکتا تھا۔ میں نے پوچھا کہ اڈوانی جی، مرلی منوہر جوشی، یشونت سنہا اور ارون شوری کی طرح ہی میرے ساتھ سلوک کیا جائے گا۔'
سنہا نے کہا کہ 'انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ وہ مجھے ٹکٹ نہیں دیں گے اور پارٹی سے نکال دیں گے۔ میں نے کہا کہ 'لیکن یاد رکھیے! نیوٹن کا تیسرا قانون ہے کہ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے اور اب آپ وہ رد عمل دیکھ رہے ہیں۔'