گیا: بہار کے ایک سبکدوش آئی اے ایس افضل امان اللہ نے یونیفارم سول کوڈ کے معاملے پر نہ صرف اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے بلکہ اُنہوں نے اسے مسلمانوں سے جوڑ کر صحیح بتانے والوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ افضل امان اللہ نے اپنی ویڈیو میں کئی سوالات بھی یونیفارم سول کوڈ کے تعلق سے کیاے ہیں۔ اُنہوں نے اسے ایک شگوفہ قرار دیا اور کہا ہے کہ اصل مسئلہ سے بھٹکانے کے لیے بوتل سے ایک جن نکال دیا گیا، وہ جن سول کوڈ کا ہے۔ خوب ہنگامہ آرائی ہے لیکن یونیفارم سول کوڈ کیا ہے؟ اُس کا ڈرافٹ کیا اور کیسا ہے اور کس پر نافذ ہوگا۔ کیسے نافذ ہوگا اور کب ہوگا؟ اس پر کچھ ابھی واضح نہیں ہے باوجود کہ سارے لوگ ہنگامہ برپا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
اُنہوں نے کہا ہے کہ ایک طبقہ خوش ہے جب کہ دوسرا طبقہ ناراض ہے۔ یونیفارم سول کوڈ ہاتھی آیا کہاوت والا معاملہ ہو گیا ہے۔ جب کہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یونیفارم سول کوڈ آئے گا تو اُس کا پہلے ڈرافٹ آئے گا اس پر بحث ہوگی۔ سبھی مذہب کے نمائندوں کی بات ہوگی کہ كس کا کیا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ ایک بڑا عمل اور کارروائی ہے جس کو انجام دے کر ہی نافذ کیا جاسکتا ہے۔ خوش فہمی کے شکار لوگوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ سبھی مذہب کے ماننے اور یہاں ملک میں بسنے والوں کے لیے ہوگا، ایک طبقہ اس نام پر خوش ہورہا ہے کہ مسلمانوں کا نقصان ہوگا اور مسلمانوں کو تسکین پہنچانے کی سیاست بند ہوگی۔
اسی نام پر ایک طبقے کے لوگ خوش ہو رہے ہیں اور خوب اچھل کود کر رہے ہیں لیکن ذرا بتائیں کہ مسلمانوں کے ساتھ کیا 'تُشتھی کرن کی راجنیتی' تسکین والی سیاست ہوئی ہے، آزادی کے ستر برس سے اب تک کتنے فیصد مسلم آئی اے ایس ہوئے ہیں، سول سروسز ، میڈیکل میں، پولیس میں نجی ملازمتوں میں کتنے مسلمان ہیں۔ بمشکل دو تین چار فیصد ہی ہیں باقی تو دکانوں پر ٹھیلوں اور سڑکوں پر مزدوری کر رہے ہیں، اُنہوں نے سوال اٹھانے والوں کی ذہنیت پر سوال کھڑے کرتے ہوئے کہا کہ پڑھ لیجیے رپورٹ کو کہ مسلمان تعلیم میں، روزگار میں، نوکری وملازمت میں، آمدنی میں سب سے خراب ہیں، تو پھر اس صورت میں ستر برسوں میں مسلمانوں کا کیا فائدہ ہوا ہے۔ صرف نقصان ہی نقصان ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ ہندوؤں کو مسلمانوں سے خطرہ ہے جب کہ سرکاری سینسس کے اعداد وشمار ہیں کہ 86 فیصد ہندو ہیں اور 14 فیصد مسلمان ہیں۔ ذہانت رکھنے والوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ 80 فیصد کو 14 فیصد سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ یہ بھی ایک بالکل بكواس والی بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ پھر کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں چار شادیاں ہوتی ہیں پہلے تو یہ کہ ہندوؤں میں بھی لاتعداد شادی ہوتی تھی حالانکہ ملک کی آزادی کے بعد 1955 میں جب قانون بنا تو کہا گیا کہ ہندو ایک شادی کریں گے لیکن یہ بھی بحث کا معاملہ نہیں ہے۔ این ایف ایس ایف 2019 - 2020 کا ڈیٹا ہے۔ اس ڈیٹا میں بتایا گیا ہے کہ ایک سے زیادہ شادی کرنے والوں میں مسلمانوں کی تعداد کل 32 لاکھ ہے۔ جنہوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کی ہیں جب کہ 125 لاکھ ہندو ہیں جنہوں نے ایک سے زیادہ شادی کیے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمان شادی کرتا ہے تو بچہ بہت پیدا کرتا ہے لیکن سمجھنا یہ ہوگا کہ اوسطاً ایک عورت کو دو چار بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ چار عورت ایک مرد سے بچہ پیدا کرے تو وہی جو اوسط ہے وہی اوریج ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ چار عورت اگر چار مرد سے شادی کرے گی تو پھر بھی اوسط وہی ہوگی کیونکہ عورت تو اتنی ہی ہے تو زیادہ زیادہ بچہ کہاں پیدا ہوگا تو ایک سے زیادہ شادی کرنے میں کیا فرق پڑ رہا ہے۔ افضل امان اللہ اپنی ویڈیو میں کہتے ہیں کہ اصل میں اس کو اصل ایشو سے بھٹکانے کے لیے مسئلہ پیدا کیا گیا ہے۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ ہے روزگاری بدعنوانی عروج پر ہے۔ ہم کسی کو اس کا قصوروار نہیں ٹھہرا رہے ہیں لیکن سوال تو کریں گے کہ ایسے مسئلے کیوں پیدا کیے جارہے ہیں۔ افضل امان اللہ نے مسلمانوں سے اپیل بھی کی اور کہا کہ جو کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمان مشتعل ہوں اُسے ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں، جب پورا خاکہ آئے گا تب دیکھا جائے گا۔ یونیفارم سول کوڈ آسان نہیں ہوگا کیونکہ ساؤتھ انڈیا میں شادی کے طور طریقے الگ ہیں۔