پٹنہ : ادباء و شعراء نے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ شازینہ راحت کا انتقال نہ صرف اردو ادب بلکہ ہندی ادب کے لئے بھی عظیم خسارہ ہے۔ وہ اردو ادب کے ساتھ ہندی ادب میں بھی بڑی دلچسپی اور گہرائی کے ساتھ لکھتی تھیں۔ نشست میں ادباء و شعراء نے مرحومہ کے شوہر پروفیسر صفدر امام قادری، صاحبزادہ ثمر قادری و شبیہ قادری سے بھی تعزیت کی۔
پروگرام کی صدارت فخرالدین عارفی نے کی جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر تسلیم عارف نے بحسن و خوبی انجام دیے. تعزیتی نشست سے خطاب کرتے ہوئے معروف شاعر خورشید اکبر نے کہا کہ ادبی حیثیت سے شازینہ راحت کو زندگی میں وہ مقام نہیں ملا اس کی وہ حقدار تھیں۔
ان کی تخلیقات اور شاعری میں ایک نئی فکر ابھر کر آتی ہے۔ وہ روایتی طرز ادب کی قائل نہیں تھیں بلکہ انہوں نے اپنی تحریروں اور شاعری کے ذریعہ ہمیشہ سے مظلوموں اور بے کسوں کی آواز اٹھائی۔ان کی جتنی بھی تخلیقات ہیں وہ سب بکھرے پڑے ہیں اگر اسے یکجا کر دیا جائے تو ادب کا سرمایہ ہوگا.
فخرالدین عارفی نے کہا کہ شازینہ راحت کی زندگی المیہ تھیں، وہ باغیانہ ذہن کی تھیں، ان کے اندر سماج کو بدلنے کا ایک عجب جنون تھا، ان کی تحریریں موجودہ سماج کو ایک چیلینج کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے.
یہ بھی پڑھیں:Mohammed Yousuf Tarigami کشمیر کا چہرہ اتنا خراب نہیں تھا جتنا بنایا گیا اور بنایا جا رہا ہے
شاعر ظفر امام قادری نے کہا کہ شازینہ راحت کئی خوبیوں کی مالک ادیبہ تھیں، وہ اچھی شاعرہ کے ساتھ بہترین نثر لکھتی تھیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل خانہ ان کی چھوڑی ہوئیں چیزوں کو یکجا کر اردو ادب کے سامنے پیش کریں تاکہ نئی نسل اس سے فیضیاب ہو سکے. تعزیتی نشست سے ڈاکٹر منی بھوشن، شاہد اختر، اشرف النبی قیصر وغیرہ نے بھی اظہار خیال کیا.