پٹنہ: 1857 کے بعد مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا تھا، اس وقت کے علمائے کرام نازک وقت میں مسلمانوں کی شیرازہ بندی کی طرف متوجہ ہوئے اور بیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی تحریک آزادی نے پورے ملک میں ایک عام بیداری کی لہر پیدا کردی۔
اسی وقت ہمہ جہت شخصیت کے مالک حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد رحمۃاللہ علیہ جو جمعیۃ علماء ہند کے بانی ہیں 1919 میں امارت شرعیہ فی الہند کے قیام کی تجویز پیش کی، لیکن بعض اسباب کی بنا پر کل ہند امارت شرعیہ کا قیام عمل میں نہ آسکا، پھر حضرت مولانا سجاد نے سرزمین بہار میں صوبائی سطح پر اس کے قیام کا منصوبہ بنایا اور اس طرح سے 26 جون 1921 کو امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمد علی مونگیری، مولانا سید شاہ بدرالدین قادری اور بانی امارت شرعیہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد جیسے اصحاب فکر علماء کی قیادت میں امارت شرعیہ کا قیام عمل میں آیا۔
امارت شرعیہ کے اب تک 7 امیر شریعت اور 6 نائب امیر شریعت منتخب ہوئے ہیں، سب سے پہلے امیر شریعت حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادری بنائے گئے، اس کے بعد مولانا سید شاہ محی الدین قادری، مولانا سید شاہ قمر الدین قادری، مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی، مولانا عبد الرحمن صاحب، حضرت مولانا سید نظام الدین اور حضرت مولانا محمد ولی رحمانی امیر شریعت کے منصب پر فائز ہوئے، مولانا ولی رحمانی کے انتقال کے بعد امیر شریعت کا منصب خالی ہونے کی وجہ امارت شرعیہ اس وقت ساتویں نائب امیر شریعت حضرت مولانا شمشاد رحمانی قاسمی کی مضبوط قیادت میں آگے بڑھ رہا ہے
امارت شرعیہ کی خدمات کا دائرہ امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی کے دور امارت میں وسیع ہوا جبکہ امارت شرعیہ کو بام عروج پر لے جانے والوں میں قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، مولانا سید نظام الدین اور مولانا ولی رحمانی کا نام تاریخ کے سنہرے صفحات پر درج ہیں۔
امارت شرعیہ کا قیام جن مقاصد کے لیے ہوا تھا آج سو سال بعد بھی یہ اپنے نصب العین سے غافل نہیں ہوئی ہے، آج بھی مسلمانوں کی بروقت دینی، ملی، شرعی رہنمائی کرتی آرہی ہے، یہی وجہ ہے کہ امارت شرعیہ سے پورے ملک کے مسلمانوں کو ایک روشنی ملتی ہے۔
امارت شرعیہ کے نظام کو چلانے کے لئے امیر شریعت کے ماتحت چار کمیٹی، مجلس ارباب حل و عقد، مجلس شوریٰ، مجلس عاملہ اور امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ ٹرسٹ ہے۔
امارت شرعیہ کے خدمات کے 11 شعبے ہیں جن میں نمایاں طور پر شعبہ افتاء اور شعبہ قضاء ہے، ملک بھر میں امارت شرعیہ کے فتویٰ کو عظمت اور قبولیت کی نگاہ سے دیکھا اور مستند سمجھا جاتا ہے جبکہ شعبہ قضاء کے تحت یہاں مسلمانوں کے آپسی جھگڑوں کا اسلامی شریعت کی روشنی میں تصفیہ کیا جاتا ہے جس کے لئے مستقل طور پر دارالقضاء قائم ہے۔
مزید پڑھیں:
امارت شرعیہ کا ماضی تابناک، حال شاندار اور مستقبل روشن ہے: مولانا شمشاد رحمانی قاسمی
اس وقت امارت شرعیہ کے 70 دارالقضاء قائم ہیں اور اب تک 90 ہزار سے زائد مقدمات شریعت اسلامیہ کے مطابق حل ہوئے ہیں
اس کے علاوہ امارت شرعیہ میں عصری تعلیم کے فروغ کے لئے مولانا منت اللہ رحمانی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ، امارت انسٹی ٹیوٹ کمپیوٹر اینڈ الیکٹرانکس اور پارا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ قائم ہے۔ صحت کے میدان میں مولانا سجاد میموریل ہسپتال کی خدمات بھی اہم ہے۔
امارت شرعیہ سو سال مکمل کر ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ نئی صدی میں داخل ہو چکی ہے، امیر شریعت منتخب ہونے تک نائب امیر شریعت مولانا شمشاد رحمانی قاسمی اپنے مضبوط کندھوں پر ادارہ کو آگے بڑھانے میں انتھک کوشش میں منہمک ہیں۔