ریاست بہار میں ڈینگو اور چکن گنیا کے معاملے میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ضلع گیا بھی ڈینگو کے کیسز میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر شہر و ضلع کے مسلم اکثریتی آبادی کے علاقے میں جہاں پانی کا جماؤ ہوتا ہے۔ ضلع گیا میں گزشتہ ایک ہفتے میں اب تک 47 افراد اس سے متاثر پائے گئے ہیں۔ ان سبھی مریض کی جانچ انوگرہ نارائن ہسپتال میں ہوئی تھی۔ ان میں 5 مریض انوگرہ نارائن ہسپتال میں زیرعلاج ہیں جبکہ ان میں 20 کو ہسپتال سے چھٹی مل چکی ہے بقیہ اپنے گھروں میں رہ کر ہی علاج کرا رہے تھے۔ Dengue Cases in Gaya
ان 47 مریضوں میں ضلع گیا کے 37 مریض ہیں، جن کا تعلق شہر کے علاقہ کونچ، ٹکاری، گروا، شیرگھاٹی، ڈومریا، امام گنج بلاک سے ہے جبکہ ابھی کئی ایسے بلاک ہیں، جو اس کی زد میں نہیں آئے ہیں۔ اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں سول سرجن رنجن کمار سنگھ نے کہاکہ ابھی ضلع میں ناگفتہ حالات نہیں ہیں جن علاقوں میں چکن گنیا اور ڈینگو کے مریض پائے گئے ہیں وہاں محکمہ کی جانب سے فوگنگ، مچھر کش دواؤں کا چھڑکاؤ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی سنگین معاملے نہیں آئے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں سے مریضوں کو پٹنہ ریفر کرنے کی نوبت پیش نہیں آئی ہے۔ مگدھ میڈیکل ہسپتال میں ایک خصوصی وارڈ کی تشکیل کی گئی ہے۔ شہری ودیہی علاقوں میں اس سے بچاو کے لیے بیداری مہم چلائی جارہی ہے۔ سبھی سی ایس سی اور پی ایچ سی کو ہدایت دی گئی ہے، وہ اپنے علاقوں میں ڈینگو اور چکن گنیا جیسی خطرناک بیماریوں سے بچاؤں کے لئے بیداری لائیں۔
انہوں نے کہاکہ کسی بھی عوامی مقام پر اگر پانی کا جماؤ ہے تو اسے فورا نکالنے کی ہدایت ڈسٹرک مجسٹریٹ نے دی ہے۔ اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف صفائی ستھرائی پر دھیان رکھنا ہے۔ گزشتہ برسوں میں کورونا کے دوران پایا گیا تھا کہ بخار لگنے کو بھی کورونا سے ہونے کا خطرہ لاحق کرتے ہوئے لوگ گھبرا جارہے تھے اور ڈینگو کے مریض کے پاس نہیں جارہے تھے جبکہ کورنا اور چکن گنیا اور ڈینگو کے سمٹم میں فرق ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ انسان نہیں پھیلاتا ہے بلکہ مچھروں کے کاٹنے کی وجہ سے یہ ہوتا ہے۔
ضلع میں نہیں پلیٹ چڑھانے کا انتظام
گیا ہی نہیں بلکہ مگدھ کمشنری کے سب سے بڑے ہسپتال "انوگرہ نارائن ہسپتال" میں خون کی ایک سیل پلیٹ لیٹ بنانے اور چڑھانے کا انتظام نہیں ہے۔ اس کے لیے ہسپتال کو لائسنس کی ضرورت پڑتی ہے جوکہ ہسپتال کے پاس نہیں ہے۔ سول سرجن نے کہاکہ جب جن مریضوں کا پلیٹ ڈاؤن ہوجاتا ہے اور انہیں پلیٹ لیٹ چڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے تو انتظام نہیں ہونے کی وجہ سے ویسے مریضوں کو پٹنہ ریفر کردیا جاتا ہے، ڈینگو میں عام طور پر پلیٹ لیٹ کم ہوجاتے ہیں۔
گزشتہ برس صرف پندرہ مریضوں کی ہوئی تھی تصدیق
ضلع گیا میں گزشتہ برس صرف پندرہ ایسے لوگ تھے، جو ڈینگو اور چکن گنیا کی زد میں آئے تھے۔ گزشتہ برس کسی مریض کی موت اس بیماری سے نہیں ہوئی تھی۔ اس برس بھی اب تک ڈینگو اور چکن گنیا سے کسی کی موت نہیں ہوئی ہے۔ سول سرجن نے کہاکہ اس میں زیادہ دوائی نہیں چلتی ہے۔ اس لیے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی علامات یہ ہے کہ تیز بخار، جسم اور جوڑوں میں درد اور آنکھوں کے پیچھے درد، جلد پر لال دھبے، ناک یا مسوڑوں سے یا الٹی میں خون آنا وغیرہ ہے۔ اس سے بچاؤ کا طریقہ ہے کہ اپنے گھروں میں کہیں پر پانی جمع نہ دیں۔
واضح رہے کہ ضلع گیا میں ڈینگو اور چکن گنیا کے بڑھتے معاملے کے پیش نظر چیف سکریٹری عامر سبحانی نے ڈی ایم اور سول سرجن کے ساتھ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے میٹنگ کرکے کئی ضروری ہدایات دیں تھے۔ اس کے بعد سے ضلع انتظامیہ کے افسران حرکت میں ہیں۔