ETV Bharat / state

Incident of Mob Violence in Gaya ہجومی تشدد معاملہ، پولیس کاروائی پر اٹھنے لگے سوال

گیا ہجومی تشدد معاملے پر پولیس کی کاروائی کو لیکر سوال اٹھنے لگے ہیں، لوجپا آر کے رہنما ڈاکٹر صبغت اللہ خان اور سی پی آئی مالے کے رہنماؤں نے کہا کہ پولیس قاتلوں کی گرفتاری کے بجائے تشدد کے شکار افراد کی مجرمانہ ریکارڈ کھنگالنے میں لگی ہے،حالانکہ مرنے والے نوجوان محمد بابر پر کسی طرح کا مقدمہ درج نہیں ہے ۔تشدد کے شکار نوجوانوں کی گاڑی سے ملنے والے اسلحہ کوبھی سازش قراردیا گیا ۔

مقتول بابر
مقتول بابر
author img

By

Published : Feb 23, 2023, 10:43 PM IST

ریاست بہار کے گیا ضلع کے بیلاگنج تھانہ حلقہ کے پپرا اور ڈیہاگاوں میں ہجومی تشدد معاملے پر سوال کھڑے ہونے لگے ہیں۔ خاص کر پولیس کی کارکردگی پر سیاسی رہنماوں نے کہاکہ یہ واردات پولیس کی ناکامی ہے ۔لوجپا آر کے رہنما ڈاکٹر صبغت اللہ خان نے کہاکہ گاوں کے لوگوں نے جنہوں نے اس واقعہ کوانجام دیا، انکی جانب سے جو باتیں کہی گئی ہیں وہ ساری باتیں سچائی پر مبنی نہیں لگتی ہیں، پولیس کی جانب سے تشدد کے شکار لوگوں کی گاڑی سے اسلحہ برآمد ہونے کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بتایاگیا ہے کہ اسکارپیو گاڑی جس سے محمد ساجد ، محمد رکن الدین اور محمدبابر گئے تھے اس سے ایک گڑاسا، ایک چھری اور ایک بم اور تین عدد گولیاں برآمد ہوئی ہیں اور یہ چوری کی غرض سے گاوں میں گئے تھے لیکن پولیس کو ان پہلوں پر بھی جانچ کرنی چاہیے کہ کوئی اگر مجرمانہ واردات کو انجام دینے جائے گا تو کیا صرف گولی رکھے گا ، بندوق نہیں ہوگی ؟ پولیس کی برآمدگی میں بندوق نہیں ہے ، لوہے کی چھوری اور گڑاساسے سینکڑوں کی آبادی پر حملہ کیا جا سکتا ہے کیا، یہ ممکن ہے ؟ انہوں نے پولیس سے منصفانہ جانچ اور تشدد کو انجام دینے والوں کو فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے

موت سے پہلے چوکیدار کو بتائی پوری کہانی
موت سے پہلے بابر نے پولیس چوکیدار بلدیو کو پورے واقعہ کے تعلق سے جانکاری دیا تھا ، بلدیو کے مطابق موت سے پہلے بابر کا پولیس نے بیان لیا تھا، اس نے بتایاتھا کہ وہ اسکارپیو سے گھومنے کے لیے رات کو ساجد اور رکن الدین کے ساتھ گیا ہوا تھا ۔ڈیہا گاوں کے پل کے پاس اتر کر وہ کھینی بنارہے تھے اسی درمیان گاوں والوں نے چور چور کا شور مچایا اور انکے پاس پہنچ کر لوگوں نے حملہ کردیا تینوں کو بے رحمی سے پیٹا گیا

چوری کے واقعہ سے گاوں والے تھے پریشان
دراصل ساجد بابر اور رکن الدین اپنی اسکارپیو گاڑی سے ڈیہا گاوں کی طرف گئے ہوئے تھے لیکن ڈیہا گاوں کے لوگوں کا کہنا ہے گزشتہ کچھ دنوں میں کئی گھروں میں چوری کی واردات ہوچکی ہے اس وجہ سے گاوں کے لوگ مستعد تھے بدھ کی رات کو ایک اسکارپیو کو گاوں کے لوگوں نے دیکھا تو انہیں شک ہوا ، اسکے بعد گاوں کے لوگوں نے چور چور کا شور مچایا اور پھر انہیں گھیر لیا ، جبکہ لوگوں کا کہنا ہے کہ تینوں نوجوان پہلے بچاو کے لیے کچھ دور تک بھاگے لیکن اسی دوران انہیں پکڑ لیاگیا اور بے رحمی سے پیٹا گیا جس میں بابر کی موت ہوگئی ہے ۔

ایس ایس پی آشیش کمار بھارتی نے پریس ریلیز جاری کرکے کہاہے کہ انہوں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے انکی ہدایت پر ایڈیشنل ایس پی لاء اینڈآرڈر پربھات کی قیادت میں پولیس کی ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے قصورواروں کی گرفتاری کے لیے چھاپے ماری کی جارہی ہے جلد ہی پولیس اس معاملے میں مجرموں کو گرفتار کرلے گی انہوں نے ریلیز میں اسکارپیو گاڑی جس میں یہ تینوں نوجوان تھے اسے برآمد سامان کی بھی تفصیل دی ہے ساتھ ہی انہوں نے محمد ساجد اور محمد رکن الدین کے مجرمانہ ریکارڈ کی بھی تفصیل جاری کی ہے اور کہاکہ ان دونوں کے خلاف بیلاگنج تھانہ میں مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج ہیں ساتھ ہی انہوں نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ کسی خاص مذہب کےنوجوان ہونے کی وجہ سے ہجومی تشدد ہوا ہے انہوں نے علاقے کے لوگوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی اور کہاکہ علاقے میں احتیاط کے طور پر پولیس کی تعیناتی کی گئی ہے ۔

سی پی آئی مالے نے معاوضے کا مطالبہ کیا
اس تشدد کے شکار مسلم نوجوانوں کے اہل خانہ کو انصاف دلانے کا مطالبہ سی پی آئی نے پریس ریلیز جاری کرکے کیا ہے ، سی پی آئی کے ضلع سکریٹری نرنجن کمار اور طارق انور نے کہاکہ یہ واقعہ پولیس کی ناکامی ہے اگر کسی گاوں میں مسلسل چوری ہورہی تھی وہاں انکی حفاظت کی ذمہ داری پولیس کی تھی گاوں کے لوگوں نے قابل مزمت واقعہ کو انجام دیا ہے پولیس پہچان کرکے سبھی قصورواروں کی گرفتاری کو یقینی بنائے اگر پولیس کی مانیں کہ وہ مجرم تھے یا کسی نیت سے گئے تھے تو ان کو جان سے مارنے کا اختیار کسنے دیا جب پکڑ لیا گیا تو پولیس کے حوالے کیوں نہیں کیا گیا ؟ طارق انور نے کہاکہ حالانکہ یہ نوجوان چوری کرنے نہیں گئے تھے طارق انور نے کہاکہ حکومت محمد بابر کے اہل خانہ کو بیس لاکھ روپے اور ایک فرد کو سرکاری نوکری دے ۔
مزید پڑھیں:Incident of Mob Violence in Gaya ہجومی تشدد کا واقعہ چوری کا الزام لگاکرانجام دیا گیا

ریاست بہار کے گیا ضلع کے بیلاگنج تھانہ حلقہ کے پپرا اور ڈیہاگاوں میں ہجومی تشدد معاملے پر سوال کھڑے ہونے لگے ہیں۔ خاص کر پولیس کی کارکردگی پر سیاسی رہنماوں نے کہاکہ یہ واردات پولیس کی ناکامی ہے ۔لوجپا آر کے رہنما ڈاکٹر صبغت اللہ خان نے کہاکہ گاوں کے لوگوں نے جنہوں نے اس واقعہ کوانجام دیا، انکی جانب سے جو باتیں کہی گئی ہیں وہ ساری باتیں سچائی پر مبنی نہیں لگتی ہیں، پولیس کی جانب سے تشدد کے شکار لوگوں کی گاڑی سے اسلحہ برآمد ہونے کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بتایاگیا ہے کہ اسکارپیو گاڑی جس سے محمد ساجد ، محمد رکن الدین اور محمدبابر گئے تھے اس سے ایک گڑاسا، ایک چھری اور ایک بم اور تین عدد گولیاں برآمد ہوئی ہیں اور یہ چوری کی غرض سے گاوں میں گئے تھے لیکن پولیس کو ان پہلوں پر بھی جانچ کرنی چاہیے کہ کوئی اگر مجرمانہ واردات کو انجام دینے جائے گا تو کیا صرف گولی رکھے گا ، بندوق نہیں ہوگی ؟ پولیس کی برآمدگی میں بندوق نہیں ہے ، لوہے کی چھوری اور گڑاساسے سینکڑوں کی آبادی پر حملہ کیا جا سکتا ہے کیا، یہ ممکن ہے ؟ انہوں نے پولیس سے منصفانہ جانچ اور تشدد کو انجام دینے والوں کو فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے

موت سے پہلے چوکیدار کو بتائی پوری کہانی
موت سے پہلے بابر نے پولیس چوکیدار بلدیو کو پورے واقعہ کے تعلق سے جانکاری دیا تھا ، بلدیو کے مطابق موت سے پہلے بابر کا پولیس نے بیان لیا تھا، اس نے بتایاتھا کہ وہ اسکارپیو سے گھومنے کے لیے رات کو ساجد اور رکن الدین کے ساتھ گیا ہوا تھا ۔ڈیہا گاوں کے پل کے پاس اتر کر وہ کھینی بنارہے تھے اسی درمیان گاوں والوں نے چور چور کا شور مچایا اور انکے پاس پہنچ کر لوگوں نے حملہ کردیا تینوں کو بے رحمی سے پیٹا گیا

چوری کے واقعہ سے گاوں والے تھے پریشان
دراصل ساجد بابر اور رکن الدین اپنی اسکارپیو گاڑی سے ڈیہا گاوں کی طرف گئے ہوئے تھے لیکن ڈیہا گاوں کے لوگوں کا کہنا ہے گزشتہ کچھ دنوں میں کئی گھروں میں چوری کی واردات ہوچکی ہے اس وجہ سے گاوں کے لوگ مستعد تھے بدھ کی رات کو ایک اسکارپیو کو گاوں کے لوگوں نے دیکھا تو انہیں شک ہوا ، اسکے بعد گاوں کے لوگوں نے چور چور کا شور مچایا اور پھر انہیں گھیر لیا ، جبکہ لوگوں کا کہنا ہے کہ تینوں نوجوان پہلے بچاو کے لیے کچھ دور تک بھاگے لیکن اسی دوران انہیں پکڑ لیاگیا اور بے رحمی سے پیٹا گیا جس میں بابر کی موت ہوگئی ہے ۔

ایس ایس پی آشیش کمار بھارتی نے پریس ریلیز جاری کرکے کہاہے کہ انہوں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے انکی ہدایت پر ایڈیشنل ایس پی لاء اینڈآرڈر پربھات کی قیادت میں پولیس کی ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے قصورواروں کی گرفتاری کے لیے چھاپے ماری کی جارہی ہے جلد ہی پولیس اس معاملے میں مجرموں کو گرفتار کرلے گی انہوں نے ریلیز میں اسکارپیو گاڑی جس میں یہ تینوں نوجوان تھے اسے برآمد سامان کی بھی تفصیل دی ہے ساتھ ہی انہوں نے محمد ساجد اور محمد رکن الدین کے مجرمانہ ریکارڈ کی بھی تفصیل جاری کی ہے اور کہاکہ ان دونوں کے خلاف بیلاگنج تھانہ میں مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج ہیں ساتھ ہی انہوں نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ کسی خاص مذہب کےنوجوان ہونے کی وجہ سے ہجومی تشدد ہوا ہے انہوں نے علاقے کے لوگوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی اور کہاکہ علاقے میں احتیاط کے طور پر پولیس کی تعیناتی کی گئی ہے ۔

سی پی آئی مالے نے معاوضے کا مطالبہ کیا
اس تشدد کے شکار مسلم نوجوانوں کے اہل خانہ کو انصاف دلانے کا مطالبہ سی پی آئی نے پریس ریلیز جاری کرکے کیا ہے ، سی پی آئی کے ضلع سکریٹری نرنجن کمار اور طارق انور نے کہاکہ یہ واقعہ پولیس کی ناکامی ہے اگر کسی گاوں میں مسلسل چوری ہورہی تھی وہاں انکی حفاظت کی ذمہ داری پولیس کی تھی گاوں کے لوگوں نے قابل مزمت واقعہ کو انجام دیا ہے پولیس پہچان کرکے سبھی قصورواروں کی گرفتاری کو یقینی بنائے اگر پولیس کی مانیں کہ وہ مجرم تھے یا کسی نیت سے گئے تھے تو ان کو جان سے مارنے کا اختیار کسنے دیا جب پکڑ لیا گیا تو پولیس کے حوالے کیوں نہیں کیا گیا ؟ طارق انور نے کہاکہ حالانکہ یہ نوجوان چوری کرنے نہیں گئے تھے طارق انور نے کہاکہ حکومت محمد بابر کے اہل خانہ کو بیس لاکھ روپے اور ایک فرد کو سرکاری نوکری دے ۔
مزید پڑھیں:Incident of Mob Violence in Gaya ہجومی تشدد کا واقعہ چوری کا الزام لگاکرانجام دیا گیا

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.