گیاـ: ریاست بہار کے ضلع گیا میں واقع مگدھ خطے کا واحد اقلیتی کالج 'مرزا غالب' ان دنوں پھر گیا کے باشندوں کے دوران موضوع بحث ہے اس کی وجہ یہاں اقتدار کے لیے ایک دوسرے کے خلاف جدو جہد ہے تازہ ترین معاملہ یہ کہ کمیٹی میں تبدیلی ہوئی ہے۔ حالانکہ منتظمہ کا دعویٰ ہے کہ خالی عہدوں کو پر کیا گیا تاہم کالج کے اقتدار ' گورننگ باڈی ' میں شامل ہونے کی خواہش رکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ حالات اور کالج میں برسر اقتدار کے دباؤ میں عہدے خالی ہوئے اور پھر موجودہ کمیٹی کے عہدیدران اپنے قلعے کو مضبوطی دینے کے لیے اپنے چہیتوں کو بحال کیا۔ دراصل اس مرتبہ معاملہ گزشتہ 28 فروری سے اس وقت شروع ہوا جب کالج کونسل کے چیئرمین محمد صدر الدین کے ذریعے گورننگ باڈی کو برخاست کرنے اور ایک ایڈہاک کمیٹی تشکیل دینے کے لیٹر جاری ہوا، جس کے بعد کالج کا مالیاتی کام رک گیا اور اس وقت کے پروفیسر انچارج محمد نسیم خان نے چیئرمین کے لیٹر کے حوالے سے کاموں پر اپنا دستخط کرنے سے منع کردیا جب کہ گورننگ باڈی کا کہنا تھا کہ وہ بے فکر ہوکر کام کریں کیونکہ چیئرمین کو یہ اختیارات حاصل نہیں ہیں کہ بغیر کونسلروں کی میٹنگ کے کمیٹی کو برخاست کرے۔
یہ بھی پڑھیں:
بائی لاز کے مطابق چیئرمین کو کسی بھی مدے کو لیکر اگر کونسلروں کی میٹنگ کرنی ہے تو وہ میٹنگ کالج احاطے میں ہی کرنا لازمی ہے اور ایسی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی ہے۔ اسی دوران محمد نسیم خان نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا جس کے بعد گورننگ باڈی نے وائس پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر شجاعت علی خان کو پروفیسر انچارج کے عہدے پر بحال کردیا۔ ڈاکٹر شجاعت علی خان شعبۂ انگریزی کے پروفیسر ہیں اور وہ نہ صرف اپنے شعبے کی بہترین تعلیم اور کارکردگی کے لیے کالج میں معروف ہیں بلکہ کالج کے پورے تعلیمی نظام کے ساتھ دیگر امور کو متحرک کرنے اور کمیٹی کے کاموں میں تعاون کرنے کے لیے بھی پہچان رکھتے ہیں۔ کئی برسوں تک انہوں نے ٹی آر کی ذمہ داری کو بھی انجام دیا ہے اب جب وہ پروفیسر انچارج بن چکے ہیں تو ان سے کالج کی بہتری کی توقعات وابستہ ہیں۔ آج ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے پروفیسر ڈاکٹر شجاعت علی خان سے کالج کی موجودہ صورتحال اور کمیٹی میں تبدیلیوں کے ساتھ یہاں کے تعلیمی نظام وغیرہ کے تعلق سے خصوصی گفتگو کی ہے۔
ڈاکٹر شجاعت علی خان نے کہا کہ گورننگ باڈی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے بلکہ جو خالی عہدے تھے اسے پر کیا گیا ہے جس میں انہیں پروفیسر انچارج بننے کے بعد ٹی آر کا عہدہ خالی ہوگیا تھا اور پہلے سے خالی ایجوکیشنسٹ کے عہدے کو پر کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سابق پروفیسر انچارج ڈاکٹر سرفراز خان ایجوکیشنسٹ اور ڈاکٹر آفتاب خان ٹی آر بنے ہیں جب کہ ایڈووکیٹ شاہ زماں انور نائب صدر بنائے گئے ہیں۔ جہاں تک چیئرمین کے ذریعے 19 مارچ کو کالج کے کونسلروں کی میٹنگ بلانے کا معاملہ ہے وہ بھی فی الحال ملتوی کردیا گیا ہے۔ چیئرمین صدر الدین نے اس کے لیے لیٹر بھی جاری کیا ہے اور ایک اشتہار بھی شائع ہوا ہے۔ چونکہ کالج میں 18 مارچ سے گریجویشن کے پارٹ ٹو کا امتحان ہونا ہے اور ایسے میں یہاں کالج احاطے میں میٹنگ کی گنجائش نہیں ہے۔
انہوں نے پوچھے جانے پر کہا کہ چِیئرمین نے جو کمیٹی کو تحلیل کرنے کا لیٹر جاری کیا ہے دراصل اس کو لیکر چیئرمین سے بات کی گئی ہے کیونکہ پہلے سے ہائی کورٹ میں اسی طرح کا معاملہ زیر سماعت ہے۔ ایسے میں جو بھی قانونی فیصلہ آئے گا وہ سبھی کو قابل قبول ہوگا لیکن اس دوران سبھی کو کالج کی بہبودی اور ترقی کے لیے کام کرنا ہوگا۔ طلبہ پہلے سے پریشان ہیں کیونکہ یونیورسٹی کی جانب سے وقت پر امتحان نہیں ہوا اب جب کہ امتحان کا وقت ہوا ہے تو اس صورت میں پہلی ترجیح بچوں کا مستقبل ہے اگر ہم اس میں کوئی دخل دیتے ہیں کبھی قوم معاف نہیں کرے گی۔ اس دوران انہوں نے یقین دلایا کہ کالج کا تعلیمی نظام مزید بہتر ہوگا اور جو بھی فیصلے کالج کے بہبود اور ترقی کے لیے ہوں گے وہ لیے جائیں گے اور جو بھی آپسی معاملات ہیں اس کو لیکر وہ پہل کریں گے تاکہ تنازعات ختم ہوجائیں۔