ETV Bharat / state

Minority Girls'Hostel in Gaya: گیا اقلیتی گرلز ہاسٹل میں سہولیات کا فقدان - گیا اقلیتی گرلز ہاسٹل میں بد نظمی

شہر گیا میں واقع اقلیتی گرلز ہاسٹل Minority Girls'Hostel in Gaya بدنظمی کا شکار ہے، طالبات نے کئی بار محکمہ اقلیتی فلاح اور اس کے افسران سے اس کی شکایت کی لیکن محکمہ کی جانب سے کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔

گیا اقلیتی گرلز ہاسٹل میں سہولیات کا فقدان
گیا اقلیتی گرلز ہاسٹل میں سہولیات کا فقدان
author img

By

Published : Nov 30, 2021, 6:24 PM IST

بہار کے شہر گیا میں واقع اقلیتی گرلز ہاسٹل Minority Girls'Hostel in Gaya برسوں سے بدنظمی، خستہ حالی کے ساتھ ساتھ سہولیات سے دو چار ہے، یہاں رہنے والے طالبات نے اس کی نہ صرف تصدیق کی ہے بلکہ محکمہ اقلیتی فلاح پٹنہ اور ضلع دفتر کو اس سلسلے میں درخواست دیکر شکایت بھی کی ہے۔

ہاسٹل کی طالبات کے مطابق ہاسٹل میں لڑکیوں کی تعلیم اور مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کے لیے ایک لائبریری بھی ہے جہاں سینکڑوں کتابیں ہیں تاہم وہ لائبریری ہاسٹل کے قیام کے بعد سے اب تک کھلی نہیں ہے یہاں تک کہ یہاں رہنے والی طالبات کو کمپیوٹر، کھانا گرم کرنے کھیل کے سامانوں کے استعمال کی اجازت تک نہیں ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ان سبھی باتوں کا علم محکمہ یا اس کے افسران کو نہیں ہے بلکہ سپرنٹنڈنٹ کا اثر ورسوخ ان تمام خامیوں حاوی ہے۔

ویڈیو

گرلز ہاسٹل کی طالبات نے سپرنٹنڈنٹ کے منمانی رویہ، ان کی بدسلوکی اور ہاسٹل میں مہینوں تک نہیں پہنچنے سمیت بجلی، پانی، کھانا اور دیگر ضروریات کی شکایت محکمہ اقلیتی فلاح کے دفتر سے کی ہے۔ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ ماہانہ 18 سو روپے کھانے کا خرچ دیتی ہیں اس کے باوجود انہیں کھانا نہیں ملتا ہے، حالانکہ اس گرلز ہاسٹل میں ایک باورچی ہے جسے ماہانہ بیس ہزار روپے تنخواہ دئے جاتے ہیں اور یہ پیسے محکمہ کی جانب سے نہیں بلکہ یہ رقم طالبات سے لیکر دی جاتی ہے۔

طالبات نے اپنی درخواست میں یہ بھی کہا ہے کہ جب ان سبھی باتوں کی شکایت وہ سپرنٹنڈنٹ ایم این انجم سے کرتی ہیں تو وہ ان کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آتیں ہیں، بچیوں کی گارجین جب ان کی پریشانیوں سے واقف ہوکر سپرنٹنڈنٹ سے سوال کرتے ہیں تو ان سے بھی بدسلوکی Abuse of female students کی جاتی ہے اور ان کے بچیوں کو ہاسٹل سے نکال دیے جانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں:

اس سلسلے میں جب ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے سپریٹنڈنٹ ایم این انجم سے رابطہ کیا تو انہوں نے مصروفیت کا حوالہ دیتے ہوئے بیان دینے سے منع کردیا حالانکہ انہوں نے یہ ضرور تسلیم کیا کہ ہاسٹل Minority Girls'Hostel میں کیئرٹیکر یا دوسرے اسٹاف نہیں ہیں جنہیں لائبریری کی ذمہ داری دی جائے اس وجہ سے لائبریری بند ہے لیکن اب اس مسئلے کا حل نکال لیا جائے گا ساتھ ہی انہوں نے اپنے اوپر لگے الزامات کے متعلق کہا کہ ان باتوں میں سچائی نہیں ہے، وقت اتنا ان کے پاس نہیں ہوتا ہے کہ وہ ہاسٹل میں رہ کر ان تمام چیزوں کی نگرانی کر سکیں۔


واضح رہے کہ شہر گیا کے کریم گنج محلے میں واقع اقلیتی گرلز ہاسٹل Minority Girls'Hostel in Gaya کا قیام سنہ 2015 میں ہوا تھا، اس گرلز ہاسٹل کا مقصد مسلم طالبات کو بڑے شہروں میں رکھ کر انہین تعلیم حاصل کرانا تھا، تاکہ انہیں کسی قسم کی دشواری پیدا نہیں ہو لیکن اقلیتی گرلز ہاسٹل بدنظمی کے شکار ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سرخیوں میں رہتا ہے، طالبات کے ذریعے محکمہ اقلیتی فلاح کو آگاہ کیے جانے کے باوجود مسائل حل نہیں ہوپاتا کیونکہ سپرنٹنڈنٹ کا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔

بہار کے شہر گیا میں واقع اقلیتی گرلز ہاسٹل Minority Girls'Hostel in Gaya برسوں سے بدنظمی، خستہ حالی کے ساتھ ساتھ سہولیات سے دو چار ہے، یہاں رہنے والے طالبات نے اس کی نہ صرف تصدیق کی ہے بلکہ محکمہ اقلیتی فلاح پٹنہ اور ضلع دفتر کو اس سلسلے میں درخواست دیکر شکایت بھی کی ہے۔

ہاسٹل کی طالبات کے مطابق ہاسٹل میں لڑکیوں کی تعلیم اور مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کے لیے ایک لائبریری بھی ہے جہاں سینکڑوں کتابیں ہیں تاہم وہ لائبریری ہاسٹل کے قیام کے بعد سے اب تک کھلی نہیں ہے یہاں تک کہ یہاں رہنے والی طالبات کو کمپیوٹر، کھانا گرم کرنے کھیل کے سامانوں کے استعمال کی اجازت تک نہیں ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ان سبھی باتوں کا علم محکمہ یا اس کے افسران کو نہیں ہے بلکہ سپرنٹنڈنٹ کا اثر ورسوخ ان تمام خامیوں حاوی ہے۔

ویڈیو

گرلز ہاسٹل کی طالبات نے سپرنٹنڈنٹ کے منمانی رویہ، ان کی بدسلوکی اور ہاسٹل میں مہینوں تک نہیں پہنچنے سمیت بجلی، پانی، کھانا اور دیگر ضروریات کی شکایت محکمہ اقلیتی فلاح کے دفتر سے کی ہے۔ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ ماہانہ 18 سو روپے کھانے کا خرچ دیتی ہیں اس کے باوجود انہیں کھانا نہیں ملتا ہے، حالانکہ اس گرلز ہاسٹل میں ایک باورچی ہے جسے ماہانہ بیس ہزار روپے تنخواہ دئے جاتے ہیں اور یہ پیسے محکمہ کی جانب سے نہیں بلکہ یہ رقم طالبات سے لیکر دی جاتی ہے۔

طالبات نے اپنی درخواست میں یہ بھی کہا ہے کہ جب ان سبھی باتوں کی شکایت وہ سپرنٹنڈنٹ ایم این انجم سے کرتی ہیں تو وہ ان کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آتیں ہیں، بچیوں کی گارجین جب ان کی پریشانیوں سے واقف ہوکر سپرنٹنڈنٹ سے سوال کرتے ہیں تو ان سے بھی بدسلوکی Abuse of female students کی جاتی ہے اور ان کے بچیوں کو ہاسٹل سے نکال دیے جانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں:

اس سلسلے میں جب ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے سپریٹنڈنٹ ایم این انجم سے رابطہ کیا تو انہوں نے مصروفیت کا حوالہ دیتے ہوئے بیان دینے سے منع کردیا حالانکہ انہوں نے یہ ضرور تسلیم کیا کہ ہاسٹل Minority Girls'Hostel میں کیئرٹیکر یا دوسرے اسٹاف نہیں ہیں جنہیں لائبریری کی ذمہ داری دی جائے اس وجہ سے لائبریری بند ہے لیکن اب اس مسئلے کا حل نکال لیا جائے گا ساتھ ہی انہوں نے اپنے اوپر لگے الزامات کے متعلق کہا کہ ان باتوں میں سچائی نہیں ہے، وقت اتنا ان کے پاس نہیں ہوتا ہے کہ وہ ہاسٹل میں رہ کر ان تمام چیزوں کی نگرانی کر سکیں۔


واضح رہے کہ شہر گیا کے کریم گنج محلے میں واقع اقلیتی گرلز ہاسٹل Minority Girls'Hostel in Gaya کا قیام سنہ 2015 میں ہوا تھا، اس گرلز ہاسٹل کا مقصد مسلم طالبات کو بڑے شہروں میں رکھ کر انہین تعلیم حاصل کرانا تھا، تاکہ انہیں کسی قسم کی دشواری پیدا نہیں ہو لیکن اقلیتی گرلز ہاسٹل بدنظمی کے شکار ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سرخیوں میں رہتا ہے، طالبات کے ذریعے محکمہ اقلیتی فلاح کو آگاہ کیے جانے کے باوجود مسائل حل نہیں ہوپاتا کیونکہ سپرنٹنڈنٹ کا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.