معذوروں کی دوستی گنگا جمنی تہذیب کی بہترین مثال - ہندو۔مسلم ایکتا
گیا کے معذوروں کا مشن، نفرت اور عداوت کی آندھی کو محبت اور خیر خواہی میں تبدیل کرنے کا ہے۔ گجرات فسادات کے بعد سنہ 2004 میں گیا سے تقریباً 1100 کلومیٹر دور قومی دارالحکومت دہلی تک 'خیر سگالی مارچ' انہی کے ذریعے نکالا گیا تھا جہاں انہوں نے اُس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام سے ملاقات کی تھی۔
بہار کے شہر گیا میں ہندو۔مسلم ایکتا اور گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار یہاں کے معذور ہیں۔ ان کی دوستی، آپسی اتحاد اور ملک کی سالمیت و امن وامان کے لیے ان کے ذریعے کئے گئے کام فرقہ پرستی کی حمایت کرنے والوں کے منہ پر نہ صرف طمانچہ ہے بلکہ نفرت و تشدد کرنے والے انسانیت کے دشمنوں کے لیے سبق آموز کہانی بھی ہے۔
گیا میں معذوروں کی ایک ٹیم ہے جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔ یہ شہر کے مختلف علاقوں میں رہتے ہیں لیکن روزانہ ان کی ملاقات اور ساتھ میں وقت گزارنا جیسے لازمی ہے۔ یہ ایک دوسرے کے تہواروں اور شادی بیاہ کے جشن بھی دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ ساتھ کھیلتے ہیں اور مختلف مواقع پر ایک دوسرے کے گھر پر پہنچ کر لذیذ پکوانوں کا لطف بھی اٹھاتے ہیں۔
ان سب کے علاوہ ان کا ایک مثالی کام اور کردار یہ ہے کہ یہ 'ہندو مسلم اتحاد' کے علمبردار ہیں اور گنگا جمنی تہذیب کی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ ان کی دوستی پر فرقہ پرستوں کی نظر نہیں پڑی بلکہ انہیں بھی ہندو مسلمان کے چشمے سے دیکھنے کے لیے خوب مجبور کیا گیا لیکن انہوں نے بہترین مثال پیش کرتے ہوئے جواب دیا کہ وہ جسمانی معذور ہیں نہ کہ ذہنی معذور۔
انہوں نے گجرات فسادات کے بعد سنہ 2004 میں ٹرائی سائیکل سے گیا سے 1100 کلومیٹر دور دہلی میں راشٹرپتی بھون تک 'قومی ایکتا مارچ' نکالا تھا۔ اس میں جہانگیر عالم، راجیش کمار اور ستیش کمار سنہا شامل تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ گجرات فساد کے دوران یا بعد میں انسانیت کو بچانے اور گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھنے کے لیے کسی نے اس طرح پہل نہیں کی تو انہیں افسوس ہوا اور انہوں نے ایکتا مارچ نکال کر ثابت کیا کہ وہ معذور ضرور ہیں لیکن ان کے حوصلے بلند ہیں۔
گیا سے اٹھارہ دنوں کا سفر طے کرکے وہ دہلی پہنچے۔ اُس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام سے ملاقات کی اور انہیں گوتم بودھ کی مورتی دے کر امن کا پیغام عام کرنے کی اپیل کی۔
ان معذوروں کا ماننا ہے کہ ملک کی سالمیت اور ایکتا کے لیے ضروری ہے کہ آپسی اختلافات بھلاکر، مذہب، برادری، رنگ و نسل، علاقے اور زبان کا فرق مٹاکر ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کریں۔ ایک دوسرے کی تہذیب سے پیار کریں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج بھی ضرورت پڑی تو وہ امن کے لیے اُسی طرح کا مارچ کرسکتے ہیں۔