ETV Bharat / state

گیا میں پَلّے والی ٹوپی پہلی پسند، تاہم کورونا کی وجہ سے تجارت متاثر

author img

By

Published : May 12, 2021, 6:14 PM IST

خاص طور پر رمضان کے آخری ایک دو دنوں میں ٹوپی، عطر، رومال اور سرمہ وغیرہ کی خریداری زور و شور سے ہوتی ہے جس میں گیا میں بنائی جانے والی "پَلّے والی ٹوپی" لوگوں کی پہلی پسند ہوتی ہے۔ تاہم اس مرتبہ بھی سال 2020 کی طرح اس کی تجارت کافی متاثر ہوئی ہے۔

گیا میں پلے والی ٹوپی پہلی پسند، تاہم کورونا کی وجہ سے تجارت متاثر
گیا میں پلے والی ٹوپی پہلی پسند، تاہم کورونا کی وجہ سے تجارت متاثر

شہر گیا میں بننے والی پلے والی ٹوپی عید میں لوگوں کی پہلی پسند ہے۔ تاہم کورونا وبا کی وجہ سے نافذ لاک ڈاون نے اس کی تجارت کو متاثر کیا ہے۔ گیا کی پلے والی ٹوپی ملک و بیرون ملک میں سپلائی کی جاتی ہے۔ یہ ٹوپی بیس روپے سے چالیس روپے کی قیمت پر فروخت ہوتی ہے ۔

رمضان المبارک کی آج 29 تاریخ ہے۔ تاہم بہار کے گیا میں لاک ڈاؤن کے سبب عید کی خریداری بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ صرف اشیائے خوردنی کے لئے کچھ گھنٹوں کی مہلت کے بعد دکانوں کو صبح سات بجے سے گیارہ بجے تک کھولنے کی اجازت ہے۔ ایسے میں وہ چیزیں جو عید کے موقع پر سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں اس کی خریداری پوری طرح متاثر ہے۔

گیا میں پلے والی ٹوپی پہلی پسند، تاہم کورونا کی وجہ سے تجارت متاثر

خاص طور پر رمضان کے آخری ایک دو دنوں میں ٹوپی، عطر، رومال اور سرمہ وغیرہ کی خریداری زور و شور سے ہوتی ہے جس میں گیا میں بنائی جانے والی "پلے والی ٹوپی" لوگوں کی پہلی پسند ہوتی ہے، تاہم اس مرتبہ بھی گزشتہ برس کی طرح اس کی تجارت کافی متاثر ہوئی ہے۔

گیا میں بدھ کو یعنی کہ انتیس رمضان کو معمولی چہل پہل ایک دو علاقوں میں محدود وقت تک دیکھنے کو ملی۔ گیا میں بنائی جانے والی پلے والی ٹوپی جو ملک و بیرون ملک کے مختلف علاقوں میں سپلائی کی جاتی ہے، اس برس اس کی تجارت کافی متاثر ہوئی ہے۔

ٹوپی کی تجارت کرنے والے حافظ اسعد بتاتے ہیں کہ رمضان میں صرف کاؤنٹر یعنی کہ ریٹیل کاونٹر میں دو سے تین لاکھ ٹوپیاں وہ فروخت کرتے ہیں۔ تاہم اس مرتبہ لاک ڈاون کی وجہ سے صرف ہزار ٹوپی ہی فروخت ہوپائی ہے۔ یہ ٹوپی کورٹن کپڑے جسے عام زبان میں "ادھھی کا کپڑا." بھی کہا جاتا ہے اس سے تیار ہوتی ہے۔

شہر گیا کے نادرہ گنج محلہ میں اس کا کارخانہ ہے، پہلے اسے درزی سلائی کرتے ہیں پھر اس کے بعد خواتین اس کے پلے کو دھاگے سے ٹاکتی ہیں اور اس کے بعد دھوبی کے پاس ٹوپی جاتی ہیں جسے وہ پھر تیار کرتے ہیں۔ یوں تو اس ٹوپی کی مانگ پاکستان سمیت کئی ممالک میں ہے تاہم ہندوستان کے شہر کانپور، الہ آباد، کلکتہ اور جھارکھنڈ کے علاقوں میں اس ٹوپی کا زیادہ مطالبہ ہے۔ گیا میں عید کے موقع پر اسی فیصد سے زیادہ لوگ اسی ٹوپی کی خریداری کرتے ہیں۔ اسکو بنانے میں ایک ٹوپی کی لاگت صرف آٹھ سے دس روپے آتی ہے۔ کم قیمتوں میں زیادہ منافع بخش کاروبار ہے ۔



چھتہ مسجد کے پاس صاد نامی نوجوان کے اسٹال سے ٹوپی خریدتے ہوئے محمد اسلم کہتے ہیں کہ وہ چالیس برسوں سے اس ٹوپی کا استعمال کرتے آرہے ہیں۔ حالانکہ تین سے چار مرتبہ ہی اس ٹوپی کو پہنا جاتاہے لیکن اسکے باوجود اسکی تجارت اچھی ہے۔ اسلم بتاتے ہیں کہ انہیں اپنے شہر میں تیار کردہ ٹوپی زیادہ پسند ہے، اسلئے وہی نہیں بلکہ انکے گھر کے سبھی افراد اسی ٹوپی کو پہنتے ہیں۔

دکاندار سعد بتاتے ہیں کہ تقریبا تیس لاکھ روپے کی اس ٹوپی کی تجارت متاثر ہوئی ہے۔

شہر گیا میں بننے والی پلے والی ٹوپی عید میں لوگوں کی پہلی پسند ہے۔ تاہم کورونا وبا کی وجہ سے نافذ لاک ڈاون نے اس کی تجارت کو متاثر کیا ہے۔ گیا کی پلے والی ٹوپی ملک و بیرون ملک میں سپلائی کی جاتی ہے۔ یہ ٹوپی بیس روپے سے چالیس روپے کی قیمت پر فروخت ہوتی ہے ۔

رمضان المبارک کی آج 29 تاریخ ہے۔ تاہم بہار کے گیا میں لاک ڈاؤن کے سبب عید کی خریداری بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ صرف اشیائے خوردنی کے لئے کچھ گھنٹوں کی مہلت کے بعد دکانوں کو صبح سات بجے سے گیارہ بجے تک کھولنے کی اجازت ہے۔ ایسے میں وہ چیزیں جو عید کے موقع پر سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں اس کی خریداری پوری طرح متاثر ہے۔

گیا میں پلے والی ٹوپی پہلی پسند، تاہم کورونا کی وجہ سے تجارت متاثر

خاص طور پر رمضان کے آخری ایک دو دنوں میں ٹوپی، عطر، رومال اور سرمہ وغیرہ کی خریداری زور و شور سے ہوتی ہے جس میں گیا میں بنائی جانے والی "پلے والی ٹوپی" لوگوں کی پہلی پسند ہوتی ہے، تاہم اس مرتبہ بھی گزشتہ برس کی طرح اس کی تجارت کافی متاثر ہوئی ہے۔

گیا میں بدھ کو یعنی کہ انتیس رمضان کو معمولی چہل پہل ایک دو علاقوں میں محدود وقت تک دیکھنے کو ملی۔ گیا میں بنائی جانے والی پلے والی ٹوپی جو ملک و بیرون ملک کے مختلف علاقوں میں سپلائی کی جاتی ہے، اس برس اس کی تجارت کافی متاثر ہوئی ہے۔

ٹوپی کی تجارت کرنے والے حافظ اسعد بتاتے ہیں کہ رمضان میں صرف کاؤنٹر یعنی کہ ریٹیل کاونٹر میں دو سے تین لاکھ ٹوپیاں وہ فروخت کرتے ہیں۔ تاہم اس مرتبہ لاک ڈاون کی وجہ سے صرف ہزار ٹوپی ہی فروخت ہوپائی ہے۔ یہ ٹوپی کورٹن کپڑے جسے عام زبان میں "ادھھی کا کپڑا." بھی کہا جاتا ہے اس سے تیار ہوتی ہے۔

شہر گیا کے نادرہ گنج محلہ میں اس کا کارخانہ ہے، پہلے اسے درزی سلائی کرتے ہیں پھر اس کے بعد خواتین اس کے پلے کو دھاگے سے ٹاکتی ہیں اور اس کے بعد دھوبی کے پاس ٹوپی جاتی ہیں جسے وہ پھر تیار کرتے ہیں۔ یوں تو اس ٹوپی کی مانگ پاکستان سمیت کئی ممالک میں ہے تاہم ہندوستان کے شہر کانپور، الہ آباد، کلکتہ اور جھارکھنڈ کے علاقوں میں اس ٹوپی کا زیادہ مطالبہ ہے۔ گیا میں عید کے موقع پر اسی فیصد سے زیادہ لوگ اسی ٹوپی کی خریداری کرتے ہیں۔ اسکو بنانے میں ایک ٹوپی کی لاگت صرف آٹھ سے دس روپے آتی ہے۔ کم قیمتوں میں زیادہ منافع بخش کاروبار ہے ۔



چھتہ مسجد کے پاس صاد نامی نوجوان کے اسٹال سے ٹوپی خریدتے ہوئے محمد اسلم کہتے ہیں کہ وہ چالیس برسوں سے اس ٹوپی کا استعمال کرتے آرہے ہیں۔ حالانکہ تین سے چار مرتبہ ہی اس ٹوپی کو پہنا جاتاہے لیکن اسکے باوجود اسکی تجارت اچھی ہے۔ اسلم بتاتے ہیں کہ انہیں اپنے شہر میں تیار کردہ ٹوپی زیادہ پسند ہے، اسلئے وہی نہیں بلکہ انکے گھر کے سبھی افراد اسی ٹوپی کو پہنتے ہیں۔

دکاندار سعد بتاتے ہیں کہ تقریبا تیس لاکھ روپے کی اس ٹوپی کی تجارت متاثر ہوئی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.