ریاست بہار کے ضلع گیا میں واقع مرزا غالب کالج میں تقابلی اردو ادب پر ایک لیکچر کا اہتمام کیا گیا ۔جس میں شعبہ انگریزی کے ڈاکٹر شجاعت علی خان نے اپنی قیمتی بات ر کھی۔ شجاعت علی خان نے کہا کہ زبان جس میں ہم اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ کسی بھی زبان کا اپنا دائرہ کار ہوتا ہے، اس لیے ایک زبان میں لکھی جانے والی چیزوں کو دوسری زبانوں تک جوڑنا، سمجھانا اور پہنچانا ادب کا تقابلی مطالعہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ رویندرناتھ ٹیگور کو گیتانجلی پر ناول ایوارڈ ملا، لیکن گیتانجلی اصل میں بنگالی میں لکھا گیاہے لیکن جب اس کا ترجمہ ہوا اور انگریزی سمیت دیگر زبانوں میں پہنچا تو اسے نوبل پرائز سے نوازا گیا ۔ انہوں نے اصرار کیا کہ شیکسپیئر کا تعلق صرف انگریزی ادب سے نہیں ہے، اس کی قدر ہندوستانی زبانوں میں بھی اتنی ہی اہم ہے، ان کا خیال تھا کہ زبان میں روانی کا معیار ہونا چاہیے۔ جو زبان پروان نہیں چڑھتی اور جس میں بہترین ادب تخلیق نہیں ہوتا اس کی نشوونما رک جاتی ہے۔
ڈاکٹر خان نے بتایا کہ تقابلی ادب کا مطلب اپنی لسانی حدود کو عبور کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادب ایک فن ہے۔ تقابلی ادب کے بارے میں معلومات دی کہ اس کا آغاز سب سے پہلے فرانسیسی زبان سے ہوا، اور اسے ہندوستان میں ٹیگور نے قائم کیا، جس کا مقصد ایک دوسرے کے ادب کو جاننا اور سمجھنا تھا۔ جب ہم ایک دوسرے کے ادب کو جانتے ہیں تو پھر ہم ایک دوسرے کی تہذیب و ثقافت سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں۔
اس پروگرام میں سوال و جواب کا سیشن بھی منعقد کیا گیا، گورننگ باڈی کے سیکرٹری شبیع عارفین شمسی نے اس موقع پر اعلان کیا کہ یہ لیکچر ایک سلسلہ کی طرح باقاعدگی سے چلے گا اور تمام اساتذہ کی شرکت کو یقینی بنایا جائے گا۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر آفتاب احمد خان نے کی اور شکریہ ڈاکٹر ثروت شمسی نے کیا۔اس موقع پر پروفیسر انچارج سرفراز خان، پروفیسر عین تابش ،ڈاکٹر آفتاب خان ،ڈاکٹر جاوید خان ،فضل الرحمان خان وغیرہ موجود تھے ۔
مزید پڑھیں:Mirza Ghalib College مرزا غالب کالج میں تقابلی ادب لکچر کا اہتمام ہوگا