آج بھی پوری دنیا میں گاندھی جی کے نظریات پر بحث و مباحثے ہوتے ہیں، ان کے پیغام محبت، عدم تشدد اور قومی یکجہتی کی پیروی کی جاتی ہے، ان کے پیغامات کو عام کرنے کے لئے مختلف ادارے سرگرم ہیں، وہیں دوسری جانب آج بھی ملک میں ایک ایسا طبقہ ہے جو گاندھی کے اصولوں کے برخلاف ایک ایسے شخص کی تقلید کر رہا ہے جس نے نفرت میں آکر گاندھی جی کا قتل کردیا تھا جسے دنیا ناتھو رام گوڈسے کے نام سے جانتی ہے۔
اس وقت ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی ابھر رہا ہے جو مہاتما گاندھی کے نظریات اور خیالات کو کچل کر خود ان کے قاتل ناتھو رام گوڈ سے کی شبیہ کو بہتر بتانے کی کوشش کر رہا ہے، کئی جگہوں پر گوڈسے کی مورتی بنا کر اسے پوجا جا رہا ہے، گویا کہ تاریخ میں گوڈسے کی کالی کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہو رہی ہے۔ جسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔
اسی موضوع پر ارریہ کے دانشور طبقے نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ہندی ادب کے بزرگ مصنف بھولا پنڈت نے کہا کہ 'مجھے اچھی طرح یاد ہے جب گاندھی جی کا قتل ہوا تھا۔ اس وقت پورے ملک میں ایک خاموشی چھا گئی تھی، ملک صدمے میں تھا، ارریہ بھی بالکل ویران نظر آتا تھا، مگر آج بھی اسی گاندھی کے اصول پر ہم لوگ چل رہے ہیں، یہ قابل افسوس ہے کہ کچھ لوگ ان کے قاتل کی پیروی کر رہے ہیں۔'
جوکی ہاٹ کے رکن اسمبلی شاہنواز عالم نے کہا کہ 'گاندھی کے اصولوں کی پیروی کر کے ہی کوئی شخص عظیم رہنما بن سکتا ہے۔'
اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے صحافی پرویز عالم نے کہا کہ 'گاندھی کے نظریے سے ہی ملک آگے بڑھ سکتا ہے، آج بھی باہر کے لوگ بھارت کو گاندھی کے نام سے ہی جانتے ہیں، گاندھی لفظ کو بھارت سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔'
شلیندر ناتھ شرن نے کہا کہ 'گوڈسے کے پیروکار وہی لوگ ہیں جو آزادی کے وقت انگریزوں کے غلام ہوا کرتے تھے، یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ ایسے لوگ بھی یہاں پائے جاتے ہیں۔'
پروفیسر رقیب احمد نے کہا کہ 'گوڈسے کے نام پر کچھ لوگ ملک کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر میرا یقین ہے جب تک یہاں ہندو مسلم سکھ عیسائی میں اتحاد برقرار ہے اس وقت تک ایسے نظریات کا فروغ ممکن نہیں۔'
وہی عفان کامل نے اس موقع پر اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ 'یہ افسوس ناک ہے آج خود اپنے ہی ملک میں گاندھی کو بتانا پڑ رہا ہے جبکہ یہ ملک گاندھی کا ہے، آج کے نوجوانوں کو ورغلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ محض چند مٹھی بھر لوگوں کا کام ہے، مگر ہمیں چاہیے کہ گاندھی جی کے نظریات کو زیادہ سے زیادہ اور بڑے پیمانے پر پھیلائیں۔'