پٹنہ ریاست بہار کا دارلحکومت ہے، اس لیے یہاں کی آوازیں ملک کے کونے کونے میں سنی جاتی ہیں اور شہر عظیم آباد جسے آج ہم پٹنہ کے نام سے پکارتے ہیں اس کی تاریخی اور ادبی حیثیت رہی ہے۔ اسی تاریخی حیثیت کو آج برقرار رکھتے ہوئے پٹنہ کا قلب کہا جانے والا سبزی باغ جو کہ ادباء و شعراء اور سیاست دانوں کا مسکن بھی ہے، وہاں قریب مسلسل چودہ دنوں سے مظاہرہ جاری ہے۔ مظاہرے میں بلا تفریق مذہب ملت ہر کوئی شریک ہے بچہ، بوڑھا، نوجوان، تعلیم یافتہ، اسکالر، وکلاء، ڈاکٹر، انجینئر طلباء و طلبات، اسکولی بچے، یونیوسٹی وجامعات میں پڑھنے والے الغرض کہ تمام طرح کے پیشے سے منسلک افراد اور تمام مذاہب کے لوگ اس مظاہرے میں شامل ہیں۔
منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ کسی ایک فرد یا کسی ایک جماعت کا مظاہرہ نہیں ہے بلکہ ہر کوئی مظاہرے سے اپنی باتیں رکھتا ہے اور اپنے جذبات کو حکومت ہند اور انتظامیہ تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔
ایسے تو ریاست میں مختلف جگہوں پر بھی مظاہرے بلا توقف جاری ہیں جیسے پھلواری شریف، عالم گنج، پٹنہ سیٹی، دیگھا مظفر پور، ماڑی پوری، چندواڑہ، دربھنگہ قلعہ گھاٹ اور لال باغ، گیا کے شانتی باغ سمیت ریاست کے مختلف اضلاع میں بھی مظاہرات جاری ہیں۔
وہیں آج پورے بہار میں این آر سی، این پی آر اور سی اے اے کے خلاف ہیومن چین یعنی انسانی زنجیر بنائی گئی، جس میں مرد و خواتین، بچے، بوڑھے، نوجوان، طلباء و طالبات سمیت ہر کسی نے شرکت کی۔
پٹنہ کے سبزی باغ اشوک راج پتھ میں بھی مظارہ میں شامل لوگوں نے ہیومن چین یعنی انسانی زنجیر بناکر اس قانون کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ ایوان حکومت تک اپنی باتوں کو پہچانے کی کوشش کی۔ مظاہرین بھی اب اپنی باتوں کو رکھنے کے لیے مختلف تکنیک کا استعمال کر رہے ہیں۔ اسی میں آج کی انسانی زنجیر ہے تاکہ پر امن طریقہ سے حکومت تک یہ بات پہنچ جائے کہ عوام اس قانون کے خلاف متحد ہیں اور اسے وہ ماننے کو تیارنہیں ہیں۔
آج کی انسانی زنجیر میں لوگ بینروں، پٹیوں، پوسٹروں پر ایک نو این آر سی، نو این پی آر، نو سی اے اے سمیت مختلف نعرے تحریر کیے ہوئے تھے۔
مظاہرے کے مقام پر روزانہ لوگ مختلف اشعار بالخصوص حب الوطنی کے نغمات پڑھ کر لوگوں کے دلوں میں وطن کے تئیں جذبہ محبت کو فروغ دینے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ آئین کی تمہید بھی دھرنے میں لوگ پڑھ رہے ہیں۔ الغرض کہ اس قانون کے آنے سے لوگ آئین کے تئیں مزید بیدار ہوئے ہیں۔ یہ جمہوریت کے تئیں ایک اچھی علامت کہی جاسکتی ہے کہ لوگ جمہوریت کے تئیں بیدار ہیں اور جمہوریت پر اعتقاد رکھتے ہیں۔
اس حکومت کے لیے ایک پیغام بھی ہے کہ اس نے لوگوں کے جذبات اور جمہوریت کی ترجمانی نہ کرکے صرف اپنی عددد طاقت کی بنیاد پر قوانین کو پارلیمنٹ سے پاس کرا کر عوام پر تھوپنے کی کوشش کی ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ لوگ آج سڑکوں پر ہیں اپنے مطالبات کے لیے۔
کبھی بابا صاحب بھیم راﺅ امبیڈ کے آئین کی تمہید اور اس کے پریمبل کا ورد کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں وہ بھی آئین کے مطابق ہمارے جذبات کی قدر اور ترجمانی کریں۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی گاندھی والی آزادی، نہرو والی آزادی، پٹیل والی آزادی کا نعرہ لگا رہی ہیں۔ ساتھ وزیراعظم نریندر مودی سے اپیل کر رہی ہیں کہ آپ ہم تمام کو کب تک سڑکوں پر یوں بیٹھنے پر مجبور کریں گے، آئیں ہماری باتیں سنیں اور ہمارے مطالبات کو تسلیم کریں۔
واضح رہے کہ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف مظاہرے میں ہر روز کوئی نہ کوئی سیاسی شخصیت شریک ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل احتجاج میں جن سیاسی و سماجی رہنماؤں نے شرکت کی ہے ان میں سے سرفہرست سابق اسمبلی اسپیکر ادئے نارائن چودھری، شیوانند تیواری، سابق ایم پی علی انور، سابق مرکزی وزیر اندر کشواہا، سابق وزیر اطلاعات ونشریات اور تعلیم ورشن پٹیل، سابق نائب وزیراعلیٰ اور اپوزیشن رہنما تیجسوی پرساد یادو، جے این یو اسٹوڈینٹس یونین کے سابق صدر کنہیا کمار، بھیم آرمی کے رہنما چندر شیکھر آزاد، مشہور اور نوجوان شاعر عمران پڑتاپ گڑھی، نو عمر شاعر سفیان پڑتاپ گڑھی، سابق وزیر کھیل شیو چندر رام، سابق وزیر صحت تیج پرتاپ یادو، سابق کونسل کے رکن انور احمد، سابق میئر افضل امام، سابق ایم پی پپو یادو، بہار کے مشہور معالج ڈاکٹر احمد عبدالحئی وغیرہ سمیت سماجی، سیاسی، ادبی، علمی، شخصیتوں نے شرکت کی اور مظاہرے کو کامیاب بنانے کی کوشش کی ہے۔