حکومت کی طرف سے لڑکیوں کی شادی کی عمر 18سے بڑھاکر21 برس کرنے کی تجویز کے بعد ملک میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر کے حوالے سے ایک بار پھر بحث تیز ہوگئی ہے۔ بعض نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا ہے تو وہیں بعض نے اس کی مخالفت کی ہے۔
بھارت میں لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ کرنا آسان نہیں ہوگا، اسکی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، شہروں میں لڑکیوں کی تعلیم اور کریئر کے بارے میں بدلتی سوچ کی وجہ سے ان کی شادی عام طور پر 21 سال کی عمر کے بعد ہی ہوتی ہے، لیکن جو اقتصادی طور سے کمزور ہیں یا پھر وہ جو جھونپڑیوں میں رہتی ہیں، بھارت کے وہ علاقے جہاں آج بھی بنیادی سہولتوں کافقدان ہے، جنکا کوئی سہارا نہیں ہے ان کے لئے 21 سال کاوقت طویل ہوگا، ان کے لئے دوسرے اثرات پیدا ہونے کا بھی خدشہ ہونے لگے گا۔
ریاست بہار کے شہر گیا میں ای ٹی وی بھارت اردو سے گفتگو کرتے ہوئے لاء کی طالبہ مریم ثناء نے کہا کہ تجویز تو بہتر ہے، اگر فوری اثرات کا جائزہ لیا جائے تو اس کے مثبت اثرات ہیں، ہر 20 منٹ پر ایک ماں کی موت ہوتی ہے اور بھارت میں موت کی شرح زیادہ ہے، اگر 21 سال کی عمر میں لڑکیوں کی شادی ہوتی ہے تو وہ سمجھدار ہوجائیں گی، تعلیم میں بھی رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی اور بڑی بات یہ ہوگی کہ لڑکی کے بالغ ہوتے ہی شادی کرنے کا فوری پریشر نہیں ہوگا لیکن اسکے فوری اثرات کو چھوڑ کر دیکھ کر بیک گراونڈ کو دیکھا جائے تو اسکے منفی اثرات بھی پیدا ہونگے، اسلئے صرف شادی کی عمر بڑھائے جانے کے ایک پہلو پر بحث مناسب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اعلی تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی شادی ویسے بھی 25 برس کے بعد ہی ہوتی ہے لیکن جن کی شادی 21 سے پہلے ہوتی ہے اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ انکی اعلی تعلیم شادی کی وجہ سے رکی ہے، اسکی وجہ اقتصادی کمزوری، گھر سے اسکول کی دوری اور گھر کی دوسری وجوہات وغیرہ ہو سکتی ہیں، ایسے میں 21 برس تک لڑکیوں کی شادی کا وقت ہونا گھر والوں پر بوجھ بن جائیگا کیونکہ دیہی علاقوں کی حالت کو دیکھیں تو یہ واضح ہے کہ وہ گھر پر لڑکی کو نہیں بیٹھا کر رکھ سکتے ہیں۔
ثنا کہتی ہیں کہ قانون بنانے سے پہلے حکومت اچھی تعلیم کے ساتھ ماحول سازگار بنائے، بیداری مہم بھی چلائے۔
سماجی کارکن ایس ایم فرہاد کہتے ہیں کہ اس طرح کے قانون بنانے سے معاشرے پر زیادہ فرق نہیں پڑتا ہے جتنا کہ بیداری سے اثر ہوتا ہے، ایس ایم فرہاد کہتے ہیں کہ تعلیم یافتہ گھرانوں میں دیکھیں تو 21 برس میں بھی شادی نہیں ہوتی ہے بلکہ 24، 25 یا اس سے زیادہ کی عمر میں شادی ہوتی ہے، اصل میں خوشحالی اور تعلیم ان دو چیزوں پر کام نہیں ہوگا کیونکہ اگر مالی تنگیوں کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم پندرہ برس میں بند ہوجاتی ہے تو 21 برس تک شادی کا انتظار کرانا بڑی دشواری ہے۔
لڑکیوں کی تعلیم پر کام کرنے والے پروفیسر بدیع الزماں سکریٹری شتابدی اسکول کہتے ہیں کہ یہ تجویز غیرمناسب ہے، عام طور پر لڑکیوں کی شادی تو 21 برس کے بعد ہی ہوتی ہے، اٹھارہ برس کے بعد بھی ہوتی ہے اور اب اٹھارہ کے بعد کی پابندی نہیں ہونی چاہئے، حکومت اگر یہ تجویز پاس کرتی ہے تو اسکی مخالفت ہونی چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم معاشرہ ہو یا پھر ہندو معاشرہ عام طور پر لڑکیوں کی شادی گریجویشن کے بعد ہی ہوتی ہے لیکن جو کسی بناء پر تعلیم حاصل نہیں کرتی ہیں تو انکے لئے مشکل کھڑی ہوسکتی ہے، بندش غیرمناسب ہے۔