گیا : گزشتہ برسوں میں رام نومی تہوار کے موقع پر ' رام نومی کے جھنڈے ' کو لیکر کئی بار تشدد برپا ہوئے ہیں ، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ان جھنڈوں کو تیار کرنے والے کاریگروں میں مسلم زیادہ ہوتے ہیں۔
ضلع گیا میں بہار اور جھارکھنڈ کے کئی اضلاع کے لیے جھنڈے تیار ہوتے ہیں اور ان جھنڈوں کو تیار کرنے والوں میں ننانوے فیصد مسلم کاریگر ہیں ، اس مرتبہ خاص بات یہ ہے کہ مسلم کاریگر روزہ رکھ کر اس کام کو انجام دے رہے ہیں ، جبکہ جھنڈے کے تاجروں کا دوسرے فرقہ ہندو طبقہ سے تعلق ہوتاہے۔
گیا میں کچھ ایسے بھی مسلم کاریگرہیں جنکی خوب آو بھگت ہوتی ہے ،اسکی وجہ یہ کہ ان جھنڈوں کو ان سے اچھا کوئی اور دوسرا تیار نہیں کرپاتا ہے ، گیا میں ایک اندازے کے مطابق ہربرس تقریبا چھوٹے بڑے بیس لاکھ کے قریب جھنڈے تیار ہوتے ہیں۔
شہر گیا کے پی روڈ گیا مارکیٹ دھامی ٹولہ اور گودام کا علاقہ تجارتی نقطہ نظر سے بہت اہم ہے گودام کے علاقے میں مسلمانوں کی دوکانیں بہت کم ہیں لیکن مسلمان کاریگر 50 سالوں سے یہاں رام نومی کے جھنڈے بنا رہے ہیں ایک سینئر کاریگر محمد رشید کے مطابق رمضان اور عید کی طرح رام نومی کے تہوار کا بھی بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اچھی آمدنی ہوجاتی ہے چھوٹے بڑے جھنڈے کی سلائی کے ساتھ اس میں مورتی لگاتے ہیں۔ دھامی ٹولہ مارکیٹ میں ایک لائن سے دس سے پندرہ درزی بیٹھتے ہیں اور یہ سبھی ایک دوسرے کے رشتے دار ہیں یہاں 30فٹ تک لمبا جھنڈا تیار ہوتا ہے ، محمدرشید کا کہنا ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کی خبریں سن کر دکھ ہوتا ہے یہاں انکے ساتھ کبھی امتیازی سلوک کا معاملہ نہیں ہوا بلکہ ہندوں کی جانب سے ان کاریگروں کی تلاش ہوتی ہے اور انہی سے جھنڈے سلوانے کی مانگ ہوتی ہے۔
بازار کے ایک دکاندار اور پنڈدت وکرم پنڈا دھامی کا کہنا ہے کہ یہ صرف بھائی چارہ ہے،جس کی وجہ سے روزہ دار مسلمان کاریگر رام نومی کا جھنڈا بناتا ہے۔ محمد یونس ، محمد رشید اور اس کے بھائی ان کے بچے برسوں سے اس کام میں دلچسپی رکھتے ہیں گیا کی روایت فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ہے ملکی سطح پر رام نومی میں تشدد اور فساد ہوئے لیکن گیا اس سے محفوظ رہاہے البتہ معمولی جھگڑےکے معاملے پیش آئے لیکن وہ فوری طور پر روک لیے گئے۔
وکرم پنڈا کا مانناہے کہ رمضان یا رام نومی میں ہم کیوں لڑیں ؟ دونوں تہوار ہمیں اخلاق مہذب ملنسار ہونے کا درس دیتے ہیں ہماری نظر میں رمضان میں بھی رام نظر آتے ہیں یہ تو رام نومی کا جھنڈا ہے ہماری مندروں میں بھی بھگوان کو پہنائے جانے والے کپڑے انہی مسلم کاریگروں کے ہاتھوں تیار ہوتے ہیں تو اس سے بڑی بات کیا ہوگی
وکرم پنڈا نے کہاکہ دھامی ٹولہ گیامارکیٹ کے پی روڈ گودام سمیت گیاشہر کے کئی علاقوں میں جھنڈے جو خاص نشان اور تصویر والے ہوتے ہیں وہ بنائے جاتے ہیں حال کے گزشتہ برسوں میں رام نومی کے جھنڈے کی مانگ بڑھی ہے اسکی وجہ کچھ بھی ہو لیکن حقیقت ہے کہ گزشتہ سات آٹھ سالوں سے ہربرس جھنڈے کی مانگ بڑھ رہی ہے ہرہندو کے گھر مکان دوکان گاڑیوں پر ایک زعفرانی رنگ کا جھنڈا ضرور نظرآئیگا اسلیے جھنڈے کی کھپت بڑھی ہے۔ گیا سے تیار جھنڈا بہار کے مختلف اضلاع سمیت جھارکھنڈ کے رانچی ہزاریباغ رام گڑھ کوڈرما چترا اور پلامو ضلع میں جاتا ہے یہاں بڑے جھنڈوں میں بیس فٹ سے لیکر تیس فٹ تک کے جھنڈے تیار ہوتے ہیں۔
ہربرس ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ سے زیادہ چھوٹے وبڑے جھنڈے تیار ہوتے ہیں وکرم پنڈانے بتایاکہ تھوک اور خردہ دونوں مارکیٹ میں ننانوے فیصد مسلم کاریگر ہیں اور وہ اپنے کام کوکررہے ہیں جس طرح مسلم کاریگروں کو رام نومی کا بے صبری سے انتظار ہوتا ہے اسی طرح ہم جیسے دوکانداروں کو عید اور رمضان کا بھی انتظار ہوتا ہے اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ ملک آگے بڑھے گا
دھامی ٹولہ میں جھنڈے کی سلائی کررہے محمد یونس نے کہاکہ رام نومی کے جھنڈے سینے کا کام ایک ماہ پہلے سے شروع ہوجاتا ہے ایک کاریگر آٹھ گھنٹے میں دو ہزار تک کی آمدنی کرلیتا ہے اگر بڑے جھنڈے سیتا ہے تو مزید آمدنی بڑھ جاتی ہے اس کام میں ہندو کاریگر بھی ہیں لیکن باریک بینی کے کام صرف مسلم کاریگر ہی کرتےہیں رام نومی کے بعد وہ دوسرے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں:Peace Committee Meeting رام نومی اور رمضان کے پیش نظر انتظامیہ مستعد
محمد رشید نے کہاکہ اب روایتی جھنڈے کاطور طریقہ بدلا ہے پہلے ہاتھوں سے ہنومان جی کی تصویر بنائی جاتی تھی اب الیکٹرانک مشینوں سے یہ ساری چیزیں تیار ہوجاتی ہیں۔ہم لوگ صرف جھنڈے میں اسے لگاتے ہیں۔
واضح رہے کہ شری رام نومی کا تہوار تیس مارچ کو ہے رام نومی میں زعفرانی رنگ کا جھنڈا سجایاجاتاہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اس جھنڈے کو لیکر ہی پہلے تنازع شروع ہوتاہے۔ گیا میں بھی بڑے پیمانے پر رام نومی منائی جاتی ہے یہاں ثقافتی اور مذہبی پروگرام بھی ہوتاہے جس میں بنارس سمیت کئی جگہوں سے فنکاروں کی آمد ہوتی ہے یہاں رام نومی کے جلوس میں لاکھوں کا مجمع ہوتا ہے گیا میں بھی متعدد مرتبہ تشدد اور ماحول کو بگاڑنے کی کوشش ہوئی ہے لیکن اس طرح کی فرقہ ورانہ ہم آہنگی کی مثالوں نے منافرت کو بڑھنے نہیں دیا۔