انجینئروں کی سوچ اور تکنیک سے کاشتکاری کے طور طریقے بدلنے لگے ہیں۔ ضلع گیا کے ٹکاری گلڑریاچک کے رہنے والے آشیش کمار دانگی انجینئر کی نوکری چھوڑ کر کھیتی کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ سالانہ 10 سے 12 لاکھ روپے کی آمدنی وہ کاشتکاری سے کرلیتے ہیں۔
آشیش نے کالے، نیلے اور پرپل رنگ کے گیہوں کی کاشت کاری کرکے ضلع کے کسانوں کے درمیان منفرد پہچان بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ گیا میں خصوصی نوعیت کی کاشت سے نوجوانوں اور کسانوں کے لیے آشیش آئیڈیل بن چکے ہیں۔
نئے نوعیت کی کاشتکاری مہم اب تحریک بن چکی ہے۔ آشیش بتاتے ہیں کہ پنجاب کے نابی سے منگوا کر قریب 200 کسانوں کو پرپل، نیلے اور کالے رنگ کے گیہوں کی کھیتی کے لئے بیج بھی دستیاب کرایا ہے۔
ان کی یہ مہم گیا کہ علاوہ نوادہ، اورنگ آباد اور ارول ضلع تک پہنچ چکی ہے اور ان دنوں کسان نئی قسم کی فصل لگا رہے ہیں۔
آشیش کمار کے مطابق عام گیہوں کے ہی طرح اس کی کاشت کے طریقے ہیں اور فی ایکڑ اس کی پیداور 15 سے 16 کیونٹل ہوتی ہے۔ کسان اس گیہوں کو مارکیٹ میں 40 سے 50 روپے فی کلو فروخت کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کی پیداوار کے لئے نہ صرف کسانوں کو بیدار کیا بلکہ انہیں بیج بھی دستیاب کرایا ہے۔
آشیش کمار کے مطابق اس گیہوں کی جانچ سائنسدانوں کے ذریعے لیبارٹری میں ہو چکی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ اس گیہوں میں پروٹین اور اینٹی آکسیڈنٹ زیادہ ہے، ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے انتہائی مفید ہے۔
اس کا لازمی طور پر استعمال کرنے پر جسم کو برابر مقدار میں آئرن ملتا ہے۔ عام گیہوں سے زیادہ اس میں آئرن، زنک اور اینٹی آکسیڈنٹ کی مقدار زیادہ ہے۔
ٹرائگلسٹرائڈ زیادہ ہونے پر اس کے استعمال سے دل کی بیماریوں کا بھی خطرہ کم ہو جاتا ہے، ساتھ ہی یہ گیہوں ریڈیکل فری ہے۔
مزید پڑھیں:
جانیں: ایم ایس پی پر خریداری سے پیدا ہونے والے مشکلات؟
پنجاب کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایگرو میں ڈاکٹر منیکا گرگ اس پرریسرچ کرچکی ہیں۔ آشیش نے بھی اس گیہوں کے نیوٹریشن ویلیو کی جانچ کے لیے بھاگلپور انسٹی ٹیوٹ سیمپل بھیج چکے ہیں۔