عام انتخابات کے دوران سیاسی پروپیگنڈہ کا شکار ہونے والے چوکیدار اس وقت موضوع بحث ہیں۔ انہیں اچھے اور برے دونوں القاب سے نوازا جارہا ہے۔ ان کی حالت عجیب و غریب بنی ہوئی ہے۔ لیکن جملوں اور القابات سے انہیں کچھ فرق تو پڑا نہیں البتہ پھبتیوں کے شکار یہ ضرور بنے۔ 'ہاں میں بھی چوکیدار' اور 'چوکیدار چور ہے' کے نعروں نے ان کو پریشان کر رکھا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ جن چوکیداروں کا نام ملک بھر میں سیاسی جماعت اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہی ہے ان کے روز مرہ کی زندگی کیسے گزرتی ہے، کیا انہیں وقت پر تنخواہیں مل رہی ہیں۔ حکومت کسی کی بھی رہی ہو مگر سچائی یہی ہے کہ گاؤں میں تعینات چوکیداروں پر کسی کی توجہ کبھی نہیں رہی۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے رات کے 12 بجے ارریہ کے چاندنی چوک پہنچے جہاں سرکاری چوکیدار گیارہ بجے سے اپنی ڈیوٹی شروع کرتے ہیں، اسی چاندنی چوک پر چوکیدار جمع ہوتے ہیں اور پھر حلقوں میں پھیل جاتے ہیں، ان لوگوں کی چوکیداری صبح کے پانچ بجے تک چلتی ہے۔
نمائندے نے جب ان سے لفظ چوکیدار کے بارے میں بتایا اور پوچھا کہ جب اس لفظ کو سیاسی پارٹیاں اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی ہیں تو کیسا لگتا ہے، وہاں موجود چوکیداروں کا صاف کہنا تھا ہمیں بیحد خراب لگتا ہے، اب تو ہمیں اس لفظ سے گھبراہٹ ہونے لگی ہے۔ اس لفظ کے ساتھ ہمارے جذبات جڑے ہوئے ہیں، اس سے ہمیں ٹھیس پہنچتی ہے۔
چوکیداروں نے اپنے مسائل بیان کرتے ہوئے کہا کہ کبھی کبھی ہم لوگوں کو چار ماہ تک مسلسل تنخواہ نہیں ملتی، اس وقت بڑی پریشانیوں سے گزرنا پڑتا ہے، دوسروں سے قرض لے کر کام چلانا ہوتا ہے، قرض بھی کوئی دیتا ہے، کوئی انکار کر دیتا ہے۔
ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت نظام میں بہتری لائے تاکہ ہمیں دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے، وقت پر تنخواہ نہ ملنے سے بچوں کی تعلیم بھی متاثر ہوتی ہے، سیاسی رہنماؤں کو چاہیے کہ ایسی چیزوں سے مکمل گریز کریں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہمارے نام پر سیاسی کھیل بند کیا جائے اور ہمیں ہمارا کام کرنے دیا جائے۔