نئی دہلی/پٹنہ: مرکزی حکومت نے بہار میں ذات پات کی بنیاد پر گنتی کے سلسلے میں پیر کو سپریم کورٹ میں داخل کردہ اپنے حلف نامے میں ترمیم کی ہے۔ حلف نامے سے پیراگراف 5 کو حذف کر دیا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا تھا کہ مردم شماری کرانے کا حق صرف مرکزی حکومت کو ہے، ریاستی حکومت ایسا نہیں کر سکتی۔
دراصل، مرکز کی طرف سے پیر کو سپریم کورٹ میں جو حلف نامہ داخل کیا گیا تھا، اس میں یہ ذکر کیا گیا تھا کہ مردم شماری ایکٹ 1948 کے تحت مردم شماری کرانے کا حق صرف مرکزی حکومت کو ہے۔ ہاں، ریاستی حکومت ایسا نہیں کر سکتی۔ ایکٹ 3 کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ مردم شماری کا اعلان کرتے وقت مرکزی حکومت بتاتی ہے کہ ملک میں مردم شماری ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ مردم شماری کرانے کی بنیاد بھی واضح کرنا ہوگی۔
- Caste-based Census in Bihar بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری شروع
- پٹنہ میں ذاتی مردم شماری کو لیکر راجد کا زبردست احتجاج و مظاہرہ
مرکزی حکومت کے اس حلف نامہ کے بعد یہ بحث شروع ہوئی کہ جب بہار حکومت پہلے ہی عدالت میں واضح کر چکی ہے کہ یہ مردم شماری نہیں ہے، یہ ذات پات کی مردم شماری ہے، تو مرکزی حکومت نے حلف نامے میں اس کا ذکر کیوں کیا ہے۔ نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ بی جے پی اور حکومت ہند نہیں چاہتی کہ بہار میں ذات پات کی بنیاد پر گنتی ہو، اس لیے پیچیدگی کی جا رہی ہے۔ کیا مرکز کی جانب سے جلد بازی کی گئی ہے؟ اب مرکز نے نیا حلف نامہ داخل کرکے اپنی پوزیشن واضح کردی ہے۔
غور طلب ہو کہ ماضی میں بھی کئی بار ذات پات کی مردم شماری کا قانون داؤ پیچ میں پھنس چکا ہے۔ بہار میں 7 جنوری کو ذات پات کی مردم شماری شروع ہوئی۔ گھر کا سروے پہلے مرحلے میں کیا گیا۔ 21 جنوری کو پہلے مرحلے کے بعد جب 15 اپریل کو دوسرا مرحلہ شروع ہوا تو پٹنہ ہائی کورٹ نے اس پر روک لگا دی۔ اس کے خلاف بہار حکومت سپریم کورٹ گئی، لیکن وہاں سے اسے ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کو کہا گیا۔ جہاں رواں ماہ یکم اگست کو ریلیف ملا اور احتجاج کی تمام درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔ اس وقت ذات پات کی مردم شماری کا کام مکمل ہو چکا ہے اور ڈیٹا انٹری کا کام جاری ہے۔