ETV Bharat / state

Caste Wise Census Data ذات کی بناء پر گنتی کے اعداد وشمار بی جے پی کے ہندوتوا کے ایجنڈے پر پڑے گا بھاری

بہار میں ذات کی بناء پر ہوئی گنتی کے اعداد وشمار جاری کردیے گئے ہیں۔ اب اس کے ذریعہ ملکی سطح پر سیاسی وسماجی اثرات مرتب ہونے پر بحثیں شروع ہوگئی ہیں۔ حالانکہ اس گنتی پر تعصب پرست ذہنیت کے لوگوں کی جانب سے مسلمانوں کا معمولی فیصد بڑھنے کا حوالہ دے کر الگ رخ دینے کی بھی کوشش ہے۔ آج اس حوالہ سے بہار کے معروف سیاسی مبصر ڈاکٹر عبدالقادر سے ای ٹی وی بھارت نے خصوصی انٹرویو کیا ہے۔ Caste Wise Enumeration Data in Bihar

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 5, 2023, 4:04 PM IST

بہار کے معروف سیاسی مبصر ڈاکٹر عبدالقادر سے ای ٹی وی بھارت نے خصوصی انٹرویو کیا
بہار کے معروف سیاسی مبصر ڈاکٹر عبدالقادر سے ای ٹی وی بھارت نے خصوصی انٹرویو کیا
بہار کے معروف سیاسی مبصر ڈاکٹر عبدالقادر سے ای ٹی وی بھارت نے خصوصی انٹرویو کیا

گیا: بہار میں کئی رکاوٹوں اور سیاسی ہنگامہ آرائی کے باوجود ذات کی بناء پر گنتی ہوئی اور اب اس کے اعداد و شمار ' گاندھی جینتی ' کے موقع پر جاری کردیے گئے ہیں. اس کے جاری ہوتے ہی سیاسی سماجی صورتحال پر اثر پڑنا شروع ہوگیا ہے۔ سیاسی مبصرین ذات کی بناء پر گنتی کو منڈل ٹو گردان رہے ہیں۔ ذات کی بناء پر ہوئی گنتی میں مسلمانوں کی فیصد 2011 کے مردم شماری کی بنسبت معمولی اضافہ ہوا ہے، 2011 میں مسلمانوں کی فیصد 16 فیصد کے قریب تھی۔ اب مسلمانوں کی آبادی 17.7088 فیصد ہے اور اس پر مسلمانوں کے درمیان بحث شروع ہوگئی ہے کہ اگر دیکھا جائے تو انتہائی پسماندہ، پسماندہ اور ایس سی برادری کے بعد سب سے بڑی آبادی مسلمانوں کی ہے۔ اس لیے اب سیاسی حصے داری اور نمائندگی اسی کے مطابق ہو حالانکہ مسلمانوں کے برادریوں کی بھی تعداد واضح کردی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

Vijay Wadettiwar ریاستی حکومت ذات پات کی سیاست کو ہوا دیکھ کر دوسرے مسائل سے توجہ ہٹا رہی ہے:وجے وڑیٹیوار

اعداد وشمار میں سب سے بڑی آبادی شیخ برادری اور اس کے بعد انصاری برادری کی ہے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کو برادریوں میں منقسم ہونے کے بجائے متحد ہوکر سیاسی حصے داری پر زور دیا جارہا ہے۔ حالانکہ کچھ تعصب پرست ذہنیت کے لوگوں کی جانب سے مسلمانوں کے قریب ایک فیصد کے اضافہ پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔ بہار میں ہوئی ذات کی بناء پر گنتی کے اعداد وشمار سمیت اس کے سیاسی سماجی اثرات کے حوالہ سے سیاسی مبصر پروفیسر ڈاکٹر عبدالقادر نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بات یہ کہ مسلمانوں کو الگ کر کے دیکھنے کی جو روایت ہے وہ اپنے آپ میں غلط ہے۔

مسلمان بھی ہندوستان کا ایک اٹوٹ حصہ

پروفیسر ڈاکٹر عبدالقادر نے کہا کہ مسلمان بھی ہندوستان کا ایک اٹوٹ حصہ ہے اور کوئی بھی ترقیاتی پالیسی بنے گی اس میں سبھی کی شراکت ہوگی، اس سینسس کے بعد کچھ باتیں کہی جارہی ہیں، جس میں ایک یہ کہ مسلمانوں کی بھی برادریوں کا اعداد وشمار ہے تو سیاسی پارٹیوں کی جانب سے برادریوں میں مسلمانوں کو تقسیم کرکے بات کی جائے گی تو اس صورت میں مسلمانوں کا کیا ہوگا؟ اور دوسری بات یہ کہ مسلمانوں ک فیصد بڑھ گیا ہے۔ یہ جو ٹرینڈسی ہے کہ مسلمانوں کا کیا ہوگا؟ تو ہم اس پر کہیں گے مسلمان بھی اس ملک کا رہنے والا ہے یہاں کا باشندہ ہے۔ یہاں کے بھلے برے میں برابر کا شریک ہے۔ اس لیے بالکل الگ کر کے کہ مسلمانوں کا کیا ہوگا یہ کہنا درست نہیں ہے اور مسلمانوں کی آبادی میں کوئی زیادہ اضافہ نہیں ہے، رہی بات سیاست کی تو چونکہ یہ سینسس ذات کی بناء پر ہوا ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملک کی سیاست اور یہاں کے معاش دونوں پر اثر انداز ہوگا اور وزیراعظم نریندر مودی جی 2047 کی بات کر رہے ہیں لیکن یہ جو برادری کارڈ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے چلا ہے وہ سیاست کا رخ بدلے گا اور اس کارڈ میں این ڈی اے پست ہوگئی ہے، انڈیا اتحاد بھی اس کو اڈاپٹ کرنے جا رہی ہے۔ اس کا اثر 2047 کے بعد تک دیکھنے کو ملے گا۔


کیا ایم وائی اتحاد پر پڑے گا اثر
عبدالقادر کہتے ہیں کہ ایم وائی ' مسلم یادو ' اتحاد وقت کے تقاضوں کے حساب سے صحیح تھا لیکن آج جو چیلنجز ہیں اس میں اس طرح کی خانہ بندی میرے خیال میں کسی کے لیے مفید نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں کی حصے داری بڑھنی چاہیے اور حصے داری ملے گی بھی لیکن وقت کے تقاضوں کے مطابق مسلمانوں کو متحد ہونا ہوگا اور اگر مسلمان برادری میں بنٹے تو کوئی اثر نہیں ہوگا۔ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں مسلمانوں کو دانشمندی کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ اس سینسس پر آگے آکر واویلا مچانے کی ضرورت نہیں ہے، نتیش کمار نے جو ایجنڈہ 2024 کا طے کیا ہے اس میں مسلمانوں کو خاموشی اختیار کرنی ہوگی کیونکہ بی جے پی اور اس کی حمایتی تعصب پرست تنظیموں کی کوشش ہوگی کہ مسلمانوں کو برادریوں میں اکسایا جائے یا فرقہ وارانہ ماحول پیدا کیا جائے۔ کیونکہ نتیش کمار نے بڑی لکیر کھینچتے ہوئے مذہبی ایجنڈے اور ہندوتوا کے ایجنڈے کی بڑی کاٹ پیش کردی ہے۔


کئی برادریوں کے لیے چونکانے والے نتائج ہیں
عبدالقادر نے اس سینسس کے حوالہ سے کہا کہ اس میں جو سب سے بڑا پوائنٹ ہے اور جو چوکانے والا بھی ہے وہ یہ ہے کہ ہندوؤں کی ایک برادری باوہن جو بہار کی سیاست میں اپنی دھمک رکھتی ہے۔ اس کا آبادی کے تناسب سے بہت ہی چوکانے والا نتیجہ ہے۔ اعداد و شمار جاری ہونے سے پہلے سمجھا جا رہا تھا کہ اس کی آبادی پانچ فیصد سے زیادہ ہوگی لیکن آبادی 2.98 فیصد ہی ہے۔ اس برادری کی سبھی پارٹیوں میں بڑی پیکٹ ہے اور بی جے پی میں اس کا خاصا اثر ہے اور اسے بی جے پی کا کیڈرو ووٹ بھی مانا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر مسلمانوں کی بات کریں تو مسلمانوں میں مومن' انصاری ' کی آبادی جو ہے وہ شیخ برادری سے کم ہے۔ شیخ کی آبادی 3.82 فیصد ہے اور انصاری کی آبادی 3.54 ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی ایک بڑی برادری مومن کے ایک دو نام نہاد رہنما جو کہہ رہے ہیں کہ ان کی گنتی میں گڑبڑی پیدا کی گئی ہے۔ دراصل وہ میرے خیال میں شاید وہ کہیں نہ کہیں آر ایس ایس کے رہنما اندریش کمار کے ہم پیالہ لوگ ہیں، اگر ان کا یہ دعویٰ ہے تو یہ غلط ہے، غلطی کسی بھی سینسس میں ہو سکتی ہے لیکن صرف انصاری یا مومن کے لیے ایسا ہوا ہے میں اسے نہیں مانتا۔

ذات سینسس منڈل پارٹ ٹو ہے
پروفیسر عبدالقادر کا ماننا ہے کہ ذات کی بناء پر گنتی کے اثرات ہندوستانی سیاست میں طویل عرصہ تک ہوں گے۔ پسماندہ انتہائی پسماندہ اور ایس سی ایس ٹی کی سیاست کو نظرانداز کرنا آسان نہیں ہے، وہ سبھی برادریاں جنہوں نے سیاسی طور پر نقصانات کا سامنا کیا ہے۔ اس میں مسلم برادریاں بھی شامل ہیں۔ ان پر اب پارٹیوں کو بات کرنی ہوگی اور سیاست کا ایک الگ رخ کردیا گیا ہے۔ اس کو کہنا بجا نہیں ہوگا کہ نتیش کمار نے منڈل پارٹ ٹو لادیا ہے اور بڑے پیمانے پر کھلبلی مچادی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ اس کا نقصان سب سے زیادہ بی جے پی کو ہوگا، اب وزیراعظم یہ کہنے لگے ہیں کہ ذات پات کی سیاست کرنے والے ملک کو بانٹ رہے ہیں۔ تو کیا وزیراعظم کی پارٹی ہندو مسلمان کرتی ہے۔ اس سے ملک کو جوڑنے کا کام ہوتا ہے۔ اس لیے پھر سے یہی کہوں گا کہ مسلمانوں کو دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

بہار کے معروف سیاسی مبصر ڈاکٹر عبدالقادر سے ای ٹی وی بھارت نے خصوصی انٹرویو کیا

گیا: بہار میں کئی رکاوٹوں اور سیاسی ہنگامہ آرائی کے باوجود ذات کی بناء پر گنتی ہوئی اور اب اس کے اعداد و شمار ' گاندھی جینتی ' کے موقع پر جاری کردیے گئے ہیں. اس کے جاری ہوتے ہی سیاسی سماجی صورتحال پر اثر پڑنا شروع ہوگیا ہے۔ سیاسی مبصرین ذات کی بناء پر گنتی کو منڈل ٹو گردان رہے ہیں۔ ذات کی بناء پر ہوئی گنتی میں مسلمانوں کی فیصد 2011 کے مردم شماری کی بنسبت معمولی اضافہ ہوا ہے، 2011 میں مسلمانوں کی فیصد 16 فیصد کے قریب تھی۔ اب مسلمانوں کی آبادی 17.7088 فیصد ہے اور اس پر مسلمانوں کے درمیان بحث شروع ہوگئی ہے کہ اگر دیکھا جائے تو انتہائی پسماندہ، پسماندہ اور ایس سی برادری کے بعد سب سے بڑی آبادی مسلمانوں کی ہے۔ اس لیے اب سیاسی حصے داری اور نمائندگی اسی کے مطابق ہو حالانکہ مسلمانوں کے برادریوں کی بھی تعداد واضح کردی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

Vijay Wadettiwar ریاستی حکومت ذات پات کی سیاست کو ہوا دیکھ کر دوسرے مسائل سے توجہ ہٹا رہی ہے:وجے وڑیٹیوار

اعداد وشمار میں سب سے بڑی آبادی شیخ برادری اور اس کے بعد انصاری برادری کی ہے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کو برادریوں میں منقسم ہونے کے بجائے متحد ہوکر سیاسی حصے داری پر زور دیا جارہا ہے۔ حالانکہ کچھ تعصب پرست ذہنیت کے لوگوں کی جانب سے مسلمانوں کے قریب ایک فیصد کے اضافہ پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔ بہار میں ہوئی ذات کی بناء پر گنتی کے اعداد وشمار سمیت اس کے سیاسی سماجی اثرات کے حوالہ سے سیاسی مبصر پروفیسر ڈاکٹر عبدالقادر نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بات یہ کہ مسلمانوں کو الگ کر کے دیکھنے کی جو روایت ہے وہ اپنے آپ میں غلط ہے۔

مسلمان بھی ہندوستان کا ایک اٹوٹ حصہ

پروفیسر ڈاکٹر عبدالقادر نے کہا کہ مسلمان بھی ہندوستان کا ایک اٹوٹ حصہ ہے اور کوئی بھی ترقیاتی پالیسی بنے گی اس میں سبھی کی شراکت ہوگی، اس سینسس کے بعد کچھ باتیں کہی جارہی ہیں، جس میں ایک یہ کہ مسلمانوں کی بھی برادریوں کا اعداد وشمار ہے تو سیاسی پارٹیوں کی جانب سے برادریوں میں مسلمانوں کو تقسیم کرکے بات کی جائے گی تو اس صورت میں مسلمانوں کا کیا ہوگا؟ اور دوسری بات یہ کہ مسلمانوں ک فیصد بڑھ گیا ہے۔ یہ جو ٹرینڈسی ہے کہ مسلمانوں کا کیا ہوگا؟ تو ہم اس پر کہیں گے مسلمان بھی اس ملک کا رہنے والا ہے یہاں کا باشندہ ہے۔ یہاں کے بھلے برے میں برابر کا شریک ہے۔ اس لیے بالکل الگ کر کے کہ مسلمانوں کا کیا ہوگا یہ کہنا درست نہیں ہے اور مسلمانوں کی آبادی میں کوئی زیادہ اضافہ نہیں ہے، رہی بات سیاست کی تو چونکہ یہ سینسس ذات کی بناء پر ہوا ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملک کی سیاست اور یہاں کے معاش دونوں پر اثر انداز ہوگا اور وزیراعظم نریندر مودی جی 2047 کی بات کر رہے ہیں لیکن یہ جو برادری کارڈ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے چلا ہے وہ سیاست کا رخ بدلے گا اور اس کارڈ میں این ڈی اے پست ہوگئی ہے، انڈیا اتحاد بھی اس کو اڈاپٹ کرنے جا رہی ہے۔ اس کا اثر 2047 کے بعد تک دیکھنے کو ملے گا۔


کیا ایم وائی اتحاد پر پڑے گا اثر
عبدالقادر کہتے ہیں کہ ایم وائی ' مسلم یادو ' اتحاد وقت کے تقاضوں کے حساب سے صحیح تھا لیکن آج جو چیلنجز ہیں اس میں اس طرح کی خانہ بندی میرے خیال میں کسی کے لیے مفید نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں کی حصے داری بڑھنی چاہیے اور حصے داری ملے گی بھی لیکن وقت کے تقاضوں کے مطابق مسلمانوں کو متحد ہونا ہوگا اور اگر مسلمان برادری میں بنٹے تو کوئی اثر نہیں ہوگا۔ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں مسلمانوں کو دانشمندی کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ اس سینسس پر آگے آکر واویلا مچانے کی ضرورت نہیں ہے، نتیش کمار نے جو ایجنڈہ 2024 کا طے کیا ہے اس میں مسلمانوں کو خاموشی اختیار کرنی ہوگی کیونکہ بی جے پی اور اس کی حمایتی تعصب پرست تنظیموں کی کوشش ہوگی کہ مسلمانوں کو برادریوں میں اکسایا جائے یا فرقہ وارانہ ماحول پیدا کیا جائے۔ کیونکہ نتیش کمار نے بڑی لکیر کھینچتے ہوئے مذہبی ایجنڈے اور ہندوتوا کے ایجنڈے کی بڑی کاٹ پیش کردی ہے۔


کئی برادریوں کے لیے چونکانے والے نتائج ہیں
عبدالقادر نے اس سینسس کے حوالہ سے کہا کہ اس میں جو سب سے بڑا پوائنٹ ہے اور جو چوکانے والا بھی ہے وہ یہ ہے کہ ہندوؤں کی ایک برادری باوہن جو بہار کی سیاست میں اپنی دھمک رکھتی ہے۔ اس کا آبادی کے تناسب سے بہت ہی چوکانے والا نتیجہ ہے۔ اعداد و شمار جاری ہونے سے پہلے سمجھا جا رہا تھا کہ اس کی آبادی پانچ فیصد سے زیادہ ہوگی لیکن آبادی 2.98 فیصد ہی ہے۔ اس برادری کی سبھی پارٹیوں میں بڑی پیکٹ ہے اور بی جے پی میں اس کا خاصا اثر ہے اور اسے بی جے پی کا کیڈرو ووٹ بھی مانا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر مسلمانوں کی بات کریں تو مسلمانوں میں مومن' انصاری ' کی آبادی جو ہے وہ شیخ برادری سے کم ہے۔ شیخ کی آبادی 3.82 فیصد ہے اور انصاری کی آبادی 3.54 ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی ایک بڑی برادری مومن کے ایک دو نام نہاد رہنما جو کہہ رہے ہیں کہ ان کی گنتی میں گڑبڑی پیدا کی گئی ہے۔ دراصل وہ میرے خیال میں شاید وہ کہیں نہ کہیں آر ایس ایس کے رہنما اندریش کمار کے ہم پیالہ لوگ ہیں، اگر ان کا یہ دعویٰ ہے تو یہ غلط ہے، غلطی کسی بھی سینسس میں ہو سکتی ہے لیکن صرف انصاری یا مومن کے لیے ایسا ہوا ہے میں اسے نہیں مانتا۔

ذات سینسس منڈل پارٹ ٹو ہے
پروفیسر عبدالقادر کا ماننا ہے کہ ذات کی بناء پر گنتی کے اثرات ہندوستانی سیاست میں طویل عرصہ تک ہوں گے۔ پسماندہ انتہائی پسماندہ اور ایس سی ایس ٹی کی سیاست کو نظرانداز کرنا آسان نہیں ہے، وہ سبھی برادریاں جنہوں نے سیاسی طور پر نقصانات کا سامنا کیا ہے۔ اس میں مسلم برادریاں بھی شامل ہیں۔ ان پر اب پارٹیوں کو بات کرنی ہوگی اور سیاست کا ایک الگ رخ کردیا گیا ہے۔ اس کو کہنا بجا نہیں ہوگا کہ نتیش کمار نے منڈل پارٹ ٹو لادیا ہے اور بڑے پیمانے پر کھلبلی مچادی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ اس کا نقصان سب سے زیادہ بی جے پی کو ہوگا، اب وزیراعظم یہ کہنے لگے ہیں کہ ذات پات کی سیاست کرنے والے ملک کو بانٹ رہے ہیں۔ تو کیا وزیراعظم کی پارٹی ہندو مسلمان کرتی ہے۔ اس سے ملک کو جوڑنے کا کام ہوتا ہے۔ اس لیے پھر سے یہی کہوں گا کہ مسلمانوں کو دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.