گیا: دُرگا پوجا کے موقع پر ضلع گیا میں جامع مسجد علاقے کو انتہائی حساس قرار دیا جاتاہے۔ جامع مسجد کی باونڈری سے متصل دکھرنی مندر ہے، یہاں پر شہر کی پانچ مورتیاں دسہرہ کی دسویں کو پہنچتی ہیں اور پھر ایک ایک کرکے جامع مسجد ہوتے ہوئے یہ مورتیاں گزرتی ہیں۔ اکثر یہاں پر مسجد کے سامنے اشتعال انگیز نعرے بازی یا دوسرے معاملے کو لیکر جھگڑا ہوتا ہے یہاں پرضلع پولیس کے ساتھ سی آرپی ایف کو لیکر خود ڈی ایم، ایس ایس پی اور دیگر اعلیٰ حکام وسماجی ارکان موجود ہوتے ہیں۔ Gaya Durga Pooja
دکھرنی مندر اور جامع مسجد کے پاس سے مورتی وسرجن جلوس کے گزرنے کی شروعات 1936 میں ہوئی تھی۔ ایکتا منچ کے کنوینر وکیل مسعود منظر نے بتایا کہ 'گیا میں پہلی مرتبہ سنہ 1936 میں درگا پوجا کے موقع پر فساد ہوا تھا۔ غالباً یہ بھارت کا پہلا فرقہ وارانہ فساد تھا۔ شہر کے مرارپور کے رہنے والے مینا پنڈت نے مورتی نصب کی تھی اور وہ مورتی وسرجن جلوس کو دکھرنی مندر سے جامع مسجد راستے ہوتے ہوئے وسرجن کے لیے لے جانا چاہتے تھے۔ چونکہ اسوقت تحریک آزادی کی لڑائی بھی جاری تھی، موقع غنیمت جانتے ہوئے انگریزوں نے اس کو مزید ہوا دے دی اور جلوس اس راستے سے گزارنے کی بات کو لے کر دو فرقوں میں تصادم ہوا جس نے بعد میں فرقہ وارانہ رخ اختیار کر لیا۔ Durga Pooja in Gaya and Hindu Muslim Unity
اس واقعہ کے بعد انتظامیہ اور مقامی لوگ جن میں وکلاء اور سبھی طبقے اور مذاہب کے معززین موجود تھے۔ ان کی پہل اور کوششوں کے بعد فساد پر قابو پایا گیا تھا تاہم اسکے بعد سے اس علاقے کی درگا پوجا کے موقع پر خاص طور سے دسویں کی رات کو حساس مقام کے طور پر پہچان ہوگئی حالانکہ 1936 کے بعد فساد نہیں ہوا لیکن کشیدگی اکثر وبیشتر ہوجاتی ہے۔ وکیل مسعود منظر بتاتے ہیں کہ آج بھی بھارت میں جہاں بھی فرقہ ورانہ تشدد ہوتاہے یہاں گیا میں انتظامیہ اور حکومت کی جانب سے ضلع کو ہائی الرٹ کیا جاتا ہے۔
1980 کے بعد وقت میں ہوئی تبدیلی
دکھرنی مندر سے جامع مسجد ہوتے ہوئے مورتی وسرجن جلوس مغرب اور عشاء کی نماز کے دوران گزر ہوتا تھا جس کی وجہ سے اکثر کشیدگی پیدا ہوجاتی تھی، اسکی مخالفت ہونی شروع ہوئی، وکیل مسعود منظر، سابق ایم جلال الدین انصاری مرحوم اور کچھ سیکولر فورسز نے انتظامیہ سے وقت میں تبدیلی مطالبہ کیا، اس کو لیکر کہا سنی شروع ہوگئی جسکے بعد پولیس نے فساد کرنے کی کوشش کے الزام میں مسعود منظر، جلال الدین انصاری سمیت کل 22 افراد کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جس میں دس افراد مسلم طبقے سے تھے جبکہ 12 افراد ہندو طبقے سے۔
مقدمہ چلا اور وقت بدلنے کی مانگ ہوتی رہی تبھی 1981 میں اسوقت کے کوتوالی تھانہ انچارج پی پی شرما نے وقت میں تبدیلی کردی اور مغرب عشاء کے درمیان کے وقت کو بدل کر عشاء کی نماز کے بعد یعنی قریب نوبجے سے اس راستے سے جلوس کو گزارنے کی اجازت دی اور یہ روایت آج تک قائم ہے حالانکہ انتظامیہ کی جانب سے ہربرس سیکورٹی کے پختہ انتظامات کیے جاتے ہیں اور اس مرتبہ پورے علاقے کی نگرانی ڈرون کیمرے سے بھی رکھی جائے گی۔
مزید پڑھیں: Gaya Durga Puja تہوار کے موقع پر پُرامن فضا کو مکدر کرنے والوں کو بخشا نہیں جائیگا، ڈی ایم
جامع مسجد کے سامنے سے پانچ مورتیوں کو گزرنے میں پوری رات گزر جاتی ہے اس دوران نہ صرف بڑی تعداد میں پولیس جوان تعینات رہتے ہیں بلکہ سبھی طبقوں سے وابستہ سماجی کارکن بھی موجود ہوتے ہیں اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں ہندو طبقے کی جانب سے پرساد وہاں موجود مسلمانوں کو دیا جاتاہے وہیں مسلمانوں کی طرف سے یہاں پر پانی اور چائے کے اسٹال لگائے جاتے ہیں اور عقیدت مندوں کی خدمت کی جاتی ہے۔
لوگوں سے اپیل
شہر گیا کا ایکتا منچ گزشتہ تیس برسوں سے آپسی بھائی چارے پر کام کرتا آ رہا ہے۔ تیس برسوں سے ایکتا منچ کی جانب سے جامع مسجد کے پاس پر امن ماحول میں جلوس کو گزارنے میں انتظامیہ کو مدد کی جاتی ہے۔ ایکتا منچ کے کنوینر مسعود منظر نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ پر امن ماحول میں جلوس کا اختتام کرائیں ساتھ ہی مسلم نوجوانوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں اور جامع مسجد کے پاس موجود نہ رہیں۔ اورکوئی اگر انہیں اکسانے کی کوشش بھی کرتا ہے تو وہ صبر تحمل سے کام لیں۔