یوں تو بہار کا خطہ سیمانچل اپنے ثقافتی تنوع اور مخصوص کلہیا زبان کے لئے ملک بھر میں جانا جاتا ہے، لیکن اگر بات ذائقے دار پکوانوں کی جائے تو یہ علاقہ کھانے پینے کے لحاظ سے بھی کافی مشہور ہے۔ کئی طرح کے پکوان تو ایسے بھی ہیں جو صرف بہار کے اسی خطہ میں بنائے جاتے ہیں اور آج ہم ان ہی میں سے ایک خاص پکوان کو آپ سے متعارف کراتے ہیں۔
بھکا ایک ایسا پکوان ہے، جو بہار کے دوسرے اضلاع میں نہیں پکایا جاتا اور بیشتر لوگ اس پکوان سے واقف بھی نہیں ہیں۔ لیکن سیمانچل کے علاقے میں جب سردیوں کے ایام میں زبردست دھند اور کہرا ہو اور سرد ہوائیں شباب پر ہوں، سورج کر کرنیں کئی دنوں تک نظر نہ آئیں تو سمجھ لیجیے یہاں بھکا کھانے کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس وقت ارریہ میں بھی بھکا زور و شور سے کھایا جا رہا ہے، ہر گھر میں بھکا بننے اور کھانے کھلانے کا دور چل رہا ہے۔
شہر کے مختلف چوک چوراہوں پر بھی بھکا کی زبردست فروخت ہو رہی ہے۔ آنے جانے والے مسافر اسے بڑے مزے سے کھا رہے ہیں۔ گرم گرم بھکا کے ساتھ گھی اور مچھلی کا ہونا لازمی سمجھا جاتا ہے کیوں کہ کھانے کا لطف اور ذائقہ اسی سے بڑھتا ہے اور صبح کے ناشتے کے وقت یہ مل جائے تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔
بسنت پور کے مکھیا وثیق الرحمن کہتے ہیں کہ بھکا پکانے کی روایت بہت قدیم ہے۔ خاص کر کلیہا برادری کے لوگوں میں اسے خوب شوق سے کھایا جاتا ہے۔ موسم سرما کی آمد سے ہی گھر گھر میں صبح کے ناشتے کے وقت اسےپکایا جاتا ہے۔ بھکا کا لطف تب ہی آتا ہے جب اس کے ساتھ گھی اور مچھلی بھی ہو۔ اب تو بازار میں بھی یہ ملنے لگا ہے اور آمدنی کا اچھا ذریعہ بھی ہے۔
موسم سرما میں جب دھان کی کٹائی ہوتی ہے تو اس کے نئے چاول کے آٹے سے بھکا بنایا جاتا ہے، جس کی شکل و صورت بالکل ساؤتھ انڈین پکوان اڈلی سے ملتی جلتی ہے۔ یہ روایت قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے اور اس کا چلن آج بھی جاری و ساری ہے اور یہاں کے مقامی لوگوں کے دسترخوان پر یہ ڈش سردی کے ایام میں ضرور ہوتی ہے۔
مقامی شخص تنویر عالم کا کہنا ہے کہ اگر اسے صبح کے وقت کھا لیا جائے تو پورے دن بھوک ہی نہیں لگتی ہے۔
دیگر مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بہار کے سیمانچل علاقے میں ہی اسے کھایا جاتا ہے اور ارریہ میں تو تقریباً 200 زائد برسوں سے اسے پکایا جاتا رہا ہے اور ہمارے آبا و اجداد بھی اسے کھاتے آئے ہیں اور ہم بھی اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اسے کھانے کا اصل مزا تو موسم سرما میں ہی آتا ہے۔
بھکا کو ایک خاص طریقے سے بنایا جاتا ہے۔ سب سے پہلے چاول کو رات بھر پانی میں بھگو دیا جاتا ہے، پھر صبح میں اسے اوکھلی یا میکسر میں پیس کر آٹا بنایا جاتا ہے۔ پھر مٹی کے برتن کے اندر پانی رکھ کر اس کے بھاپ سے اسے سینکا جاتا ہے۔ ایک بھکا بنانے میں دو سے تین منٹ کا وقت لگتا ہے۔
وہیں، تیتری دیوی بتاتی ہیں کہ وہ گزشتہ 40 برس سے بھکا بناتے آرہی ہیں اور فروخت کرتی آرہی ہیں۔
بھکا بغیر مچھلی کے ادھورا سمجھا جاتا ہے۔ دونوں کا ساتھ چولی دامن کا ہے۔ بھکا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا استعمال آپسی بھائی چارہ اور رشتہ داریوں کو فروغ دینے میں بھی ہوتا ہے۔ لوگ اپنے اپنے گھروں پر اس کا باضابطہ اہتمام کرتے ہیں اور کھانے کے لئے ایک دوسرے کو مدعو کرتے ہیں۔
بھکا کھانے کا جنون سیمانچل سے متصل ریاست بنگال، آسام میں تو ہے ہی، لیکن نیپال اور بنگلہ دیش جیسے پڑوسی ممالک میں بھی لوگ اسے بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ نیپال میں تو ہر سال بھکا دیوس یعنی "یوم بھکا" بھی منایا جاتا ہے۔
بھکا کھانا موسم سرما میں صحت کے اعتبار سے بھی مفید ہے کیونکہ یہ جسم کو گرم رکھتا ہے اور صبح کے وقت اگر اسے کھا لیا جائے تو دن بھر کھانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ کیا غریب اور کیا امیر سبھی لوگ اسے بڑے شوق سے کھاتے اور کھلاتے ہیں۔